تعلیم و تربیت اور خاندانی نظام کی تباہی کے باعث اقبال ؒ، مودودی ؒ جیسی شخصیات پیدا نہیں ہو رہی ہیں

371

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) اللہ تعالیٰ کی مشیت کے علاوہ ہمارے معاشرے میں تعلیم و تربیت اور خاندانی نظام کی تباہی کے سبب مسلم دنیا میں اب امام غزالیؒ، علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ جیسی شخصیات پیدا نہیں ہو رہیں تاہم ان شخصیات کے نظریاتی اور روحانی اثرات موجود ہیں اور ان کی یہی بڑی کامیابی ہے کہ ان کے مشن اور فکر کی ترویج و اشاعت کے لیے لا تعداد لوگ دنیا بھر میں مصروف عمل ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری لیاقت بلوچ، ممتاز دانشور اور مصنف پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی اور ’’دنیا نیوز‘‘ کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مسلم دنیا میں امام غزالیؒ، علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ جیسی بڑی شخصیات اب کیوں پیدا نہیں ہو رہیں؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ امام غزالیؒ، مولانا رومیؒ، علامہ اقبالؒ اور سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ بہت عظیم شخصیات تھیں جو صدیوں میں ہی پیدا ہوا کرتی ہیں مگر یہ ان ہی کی کامیابی ہے کہ ان کی فکر زندہ بھی ہے اور پھل پھول بھی رہی ہے اور ان کے مشن اور فکر کے مطابق لاتعداد لوگ جدوجہد میں مصروف عمل ہیں پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حالات کے تقاضوں کے مطابق علمی، فکری اور تحقیقی کام ہو رہا ہوتا ہے مگر معاشرے کا چلن ایسا ہے کہ ان کی زندگی میں انہیں اہمیت نہیں دی جاتی البتہ جب وہ انتقال کر جاتے ہیں تو ان کے کام کا وزن بھی محسوس ہوتا ہے‘ امام غزالی، علامہ اقبال اور مولانا مودودی نہایت بلند پایہ شخصیات تھیں، پوری دنیا میں ان کے کام اور فکر کو آگے بڑھانے والے آج بھی موجود ہیں‘ موجودہ دور میں پروفیسر خورشید احمد نے علمی اور فکری اعتبار سے اپنا مقام بنایا ہے، مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی دعوتی، فکری اور علمی میدان میں قابل قدر کام کیا‘ ایسی ہی بہت سی دیگر شخصیات بھی مسلم دنیا میں اپنی خدمات کے لحاظ سے ممتاز مقام رکھتی ہیں جو اگرچہ اس پایہ کی نہ بھی ہوں جن شخصیات کا ہم ذکر کر رہے ہیں مگر انہوں نے بہر حال اپنا حق ادا کیا ہے۔ڈاکٹر اختر عزمی نے کہا کہ بنیادی طور پر تو یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے کہ وہ کس شخصیت کو کب دنیا میں بھیجتا ہے‘ بعض اوقات نہایت برے حالات اور زوال پذیر زمانے میں بہت بلند پایہ شخصیات جنم لیتی ہیں‘ ایسی شخصیات کے آج کل فقدان کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا جو خود کار نظام اور خاندان کا ادارہ موجود تھا، وہ اب اپنا وجود بڑی حد تک کھو چکا ہے‘ ماضی میں ان پڑھ والدین بھی بچوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردار کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے‘ مگر گزشتہ 30، 40 برس کے دوران تعلیم سے متعلق سوچ تبدیل ہو گئی ہے‘ یہ محض ذریعہ معاش اور فکر روزگار کے گرد گھومنے لگی ہے‘ تربیت کا عنصر تعلیم سے خارج ہو گیا ہے‘ پہلے مڈل کلاس طبقے سے قومی قیادت نکلتی تھی مگر اب وہاں بھی کسی کو فکر نہیں کہ بچے کدھر جا رہے ہیں‘ علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مقرر کیے گئے اتالیق ان کی فکری اٹھان اور کردار سازی میں بہت اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ہمارے غلامی کے دور میں علامہ اقبالؒ، قائد اعظم، مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی وغیرہ کی تربیت میں ’’ماں‘‘ کا بنیادی کردار رہا ہے مگر اب مائیں بچوں کو اسکولوں کے سپرد کر کے فارغ ہو جاتی ہیں۔ سلمان غنی نے کہا کہ اگر ہم اپنی نظریاتی اساس سے دور نہ ہوتے تو ہم موجودہ صورت حال سے دوچار نہ ہوتے تاہم آج یہ عظیم شخصیات جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں مگر روحانی اور نظریاتی طور پر ہم آج بھی ان سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں‘ ان کی تعلیمات سے رجوع کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کی تعلیمات سے دنیا آج بھی مستفید ہو رہی ہے مگر ہم ان کی جانب رجوع کرنے سے گریزاں ہیں‘ علامہ اقبالؒ نے خودی کا جو پیغام اپنے کلام کے ذریعے دیا ہم اگر اسے اپنا لیں تو ہمیں بھیک مانگنے کے لیے دنیا کے سامنے سرنگوں نہ ہونا پڑے‘ ہماری عزت، بقا، تشخص اور وقار علامہ اقبال کے افکار اور سید مودودیؒ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے اور ان کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل مرتب کر کے آگے بڑھنے ہی میں مضمر ہے۔