کوئٹہ، میڈیکل کے طلبہ کا رجسٹریشن نہ کرنے کیخلاف احتجاج

262

کوئٹہ(نمائندہ جسارت)کوئٹہ میں چار سالوں سے زیر تعلیم میڈیکل کالجز کے 600 طلبہ کی پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے رجسٹریشن نہ ہونے کے خلاف احتجاج کیا گیا جس کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل میں ایک طالبہ زخمی ہوگئی۔تادم مرگ بھوک ہڑتال پر موجود پانچ طلبہ کی وہیل چیئر اور اسٹریچر پر احتجاج میں شریک ہوئے۔ پانچوں طلبہ نے گزشتہ سات دنوں سے کچھ کھایا پیا نہیں جس کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہے اور وہ کئی دنوں سے اسپتال میں داخل تھے۔ اسپتال سے انہیں وہیل چیئر اور اسٹریچر پر دھرنے کی جگہ تک لایا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاجی طلبہ و طالبات ریڈ زون کی طرف جانا چاہتے تھے جہاں گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس واقع ہے۔پولیس نے ا نہیں روکاتو دھکم پیل شروع ہوگئی۔ پولیس کے اینٹی رائٹ فورس کے سیکڑوں اہلکاروں نے مظاہرین کے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنادی جس کے بعد طلبہ نے کمشنر آفس کے قریب دھرنا دے دیا۔بلوچستان کے تین اضلاع خضدار، تربت اور لورالائی میں قائم ہونے والے تین نئے میڈیکل کالجز کے طلبہ و طالبات گزشتہ تین ماہ سے پاکستان میڈیکل کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جس میں کالج میں گزشتہ چار برسوں کے دوران داخلہ لینے والے تمام طلبہ کو نئے سرے سے ٹیسٹ دینے کا کہا گیا ہے۔مطالبات تسلیم نہ ہونے پر پانچ طالب علموں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں 11 فروری سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی اس دوران پانچوں طلبہ کی حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھوک ہڑتال پر موجود طلبہ کچھ کھانے پینے پر تیار نہیں اس لیے ڈرپ کی مدد سے ان کے جسم میں پانی اور خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے۔میڈیکل الائنس کمیٹی کے انچارج مصدق بلوچ نے بتایا کہ بھوک ہڑتال پر موجود طلبہ کی زندگی کو خطرات لاحق ہے مگر پاکستان میڈیکل کمیشن کو کوئی فرق نہیں پڑرہا۔صوبائی وزیر خزانہ نور محمد دمڑ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو طلبہ کا مسئلہ حل کرانے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں اور وہ وفاقی حکومت اور پاکستان میڈیکل کمیشن کے حکام کے ساتھ معاملہ اٹھارہے ہیں۔گزشتہ روز چیف سیکرٹری بلوچستان اور صوبائی سیکرٹری صحت نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے حکام کے ساتھ اس مسئلے پر اجلاس بھی کیا اور دوسرا اجلاس 15 دنوں بعد طلب کیا گیا ہے۔تاہم احتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ طلبہ گزشتہ تین ماہ سے احتجاج پر ہیں مگر معاملے کو حل کرنے کے بجائے طول دیا جارہا ہے۔ مزید تاخیر کی گئی تو بھوک ہڑتال پر موجود طلبہ کی جان کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔مصدق بلوچ نے بتایا کہ خضدار، تربت اور لورالائی میں قائم ہونے والے تین نئے میڈیکل کالجز میں 2018ء میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے انٹری ٹیسٹ لیے گئے اور سالانہ 150 طلبہ و طالبات کو داخلے دیے گئے۔ اس طرح گزشتہ چار برسوں کے دوران مجموعی طور پر تینوں میڈیکل کالجز میں 600 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ’اب جب کچھ طالب علم میڈیکل کی پانچ میں سے تین سال کی تعلیم مکمل کرچکے ہیں اور چوتھا تعلیمی سال جاری ہے تو پاکستان میڈیکل کمیشن نے نئے سرے سے تمام 600 طلبہ سے ٹیسٹ لینے کا حکم جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ جو ٹیسٹ پاس نہ کرسکا وہ مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا۔‘پاکستان میڈیکل کمیشن نے تینوں نئے کالجز کی رجسٹریشن نومبر 2021ء میں کی تھی تاہم اس میں طلبہ کے داخلے 2018ء میں دیے گئے۔ کمیشن نے زیر تعلیم طلبہ سے نئے سرے سے ٹیسٹ لینے کا حکم دیا تھا۔مصدق بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر میڈیکل کالجز میں سہولیات پوری نہیں تھیں اور اس کی رجسٹریشن میں تاخیر کی گئی تو یہ طلبہ کی نہیں حکومت کی غلطی تھی۔ حکومت کی کمزوریوں کی سزا طلبہ کو نہ دی جائے۔