خفیہ نکاح کی شرعی حیثیت

405

سوال: ایک لڑکی اپنے ایک دوست نوجوان سے محبت کرتی ہے۔ وہ اس سے نکاح کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے والدین تیار نہیں ہیں۔ طے ہوتا ہے کہ دونوں خفیہ طریقے سے یا عدالت جاکر نکاح کر لیں۔ بعد میں لڑکی جب اپنے والدین کو راضی کرلے گی تو دوبارہ علانیہ نکاح کا دکھاوا کر لیا جائے گا۔ اس صورتِ حال میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں:
۱)کیا والدین کی مرضی کے بغیر لڑکی کا نکاح درست ہوگا؟
۲) کیا خفیہ طریقے سے نکاح جائز ہے؟
۳)کیا کورٹ میرج شریعت کی نگاہ میں معتبر ہے؟
۴)کیا ایک بار نکاح ہوجانے کے بعد دوبارہ نکاح کا دکھاوا کرنا درست ہے؟
براہِ کرم ان سوالات کے جوابات سے نوازیں۔
جواب: ۱)نکاح کے درست ہونے کے لیے کیا والدین کی مرضی ضروری ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ اسے ضروری قرار دیتے ہیں، جب کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بالغ لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں۔ امام شافعیؒ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں ولی کی مرضی کے بغیر نکاح کو اللہ کے رسولؐ نے باطل قرار دیا ہے۔ (ابو داؤد، ترمذی) جب کہ امام ابوحنیفہؒ ان آیات و احادیث کو دلیل میں پیش کرتے ہیں جن میں نکاح کے درست ہونے کے لیے عورت کی رضا مندی کی بات کہی گئی ہے۔ (البقرۃ: 230، 232، 234، مسلم)
فقہا کے اختلاف سے قطع نظر موجودہ دور میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ لڑکی اپنے والدین یا ولی کی مرضی سے نکاح کرے۔ وہ زمانے کے سرد و گرم سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، اپنی اولاد کے بہی خواہ ہوتے ہیں۔ لڑکی خود سے والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کا اقدام کرے تو بسا اوقات وہ دھوکے کا شکار ہو سکتی ہے، یا بعد میں ازدواجی زندگی میں کوئی تنازع پیدا ہونے پر اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔
۲)نکاح کے انعقاد کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم دو بالغ مسلما ن مردوں (یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ نکاح معتبر ہے۔ اگرچہ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) تاکہ سماج میں لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں نوجوان اور فلاں دوشیزہ، جو اب تک اجنبی تھے، اب رشتۂ نکاح میں بندھ گئے ہیں۔ اس لیے حتی الامکان خفیہ طریقے سے نکاح کرنے سے بچنا چاہیے۔
۳)کورٹ میرج کی بھی یہی حیثیت ہے کہ اگر دو بالغ مسلمان مردوں کو گواہ بنا کر ایجاب و قبول ہوتا ہے تو شرعی طور پر نکاح ہوجائے گا۔
۴)ایک بار نکاح ہوجانے کے بعد دوبارہ نکاح کا دکھاوا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا کرنے سے بچنا چاہیے۔ والدین بعد میں رضا مند ہوجائیں تو ان سے بتا دینا چاہیے کہ ہم نکاح کر چکے ہیں۔ دوبارہ نکاح کا دکھاوا کرکے کبھی ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ کوئی شریف انسان زندگی بھر منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر خفیہ طریقے سے نکاح کر لیا گیا اور زوجین کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہوگیا۔ اس کے تین چار ماہ بعد علانیہ نکاح کی رسم انجام دی گئی۔ اس صورت میں عین ممکن ہے کہ ازدواجی تعلق کے بعد استقرار حمل ہوگیا ہو اور علانیہ نکاح کے چار پانچ ماہ بعد ہی بچے کی پیدائش ہوجائے۔ایسی صورت میں سماج میں طرح طرح کی باتیں بنتی ہیں۔
nn