کسی بے پروا مسیحائی نے۔۔ لے لی میری جان!

628

کیوں نہ آج کچھ مرنے، مارنے کی باتیں ہو جائیں، ارے۔۔۔ آپ لوگ غلط مت سمجھیے گا، میرا مطلب اسپتالوں میں ہونے والی اموات سے ہے۔ ویسے موت کو ایک دن میں کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور یاد کر ہی لینا چاہیے، کافی افاقہ ہو جاتا ہے!! کیا۔۔ کیا کہا۔۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ بھئی سمجھ نہیں آرہا تو یاد کرکے دیکھ لیجیے، آزمائش شرط ہے۔ خیر، اب مطلب یعنی موضوع کی طرف بڑھتے ہیں اور بات کرتے ہیں ایک حساس اور اہم معاملے کی۔ ہمارے اسپتالوں سے مریض شفاء یاب ہو کر بھی گھروں کو واپس آتے ہیں اور ’’مر‘‘ کر بھی۔ اسپتال میں کسی کی موت کا واقع ہو جانا کوئی اچھنبے والی بات نہیں۔ یہ تو منحصر ہے بیماری کی نوعیت اور مریض کی حالت پر، بروقت معیاری علاج اور اچھے اسپتالوں میں ہوتی بہترین دیکھ بھال پر۔ ہمارے یہاں اچھے اسپتال کون سے ہیں یہ فیصلہ کرنا ایک کٹھن اور مشکل ترین کام ہے۔ عام طور پر اسپتال یا تو سرکاری ہوتے ہیں یا پھر پرائیویٹ۔ نجی اسپتال اچھی خاصی رقم لے رہے ہوتے ہیں، اچھے تو وہ تب کہلائیں کہ جب بہترین خدمات پہنچا رہے ہوں اور اُس کے عوض اپنی تجوریاں نہ بھر رہے ہوں۔ نجی اسپتال جائز اور ایماندارانہ معاوضہ لے رہے ہوں تو پھر کیونکر نہ سراہے جائیں، تعریفیں ہوں، عزت، وقار، نیک نامی اور شہرت میں کئی گُنا اضافہ ہو اور بالآخر اسپتالوں کو اُن کے مطلوبہ اہداف بھی حاصل ہو ہی جائیں۔ دوسری جانب سرکاری اسپتال ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آرہا کہ سرکاری اسپتالوں کی یہا ں کیا بات کی جائے۔ 73سال سے صرف باتیں ہی تو ہو رہی ہیں۔ خیر، اسپتال میں کسی مریض کا مر جانا کوئی ایسی انہونی بات نہیں، نہ ہی یہ کوئی حیران کن اور پریشانی والی بات ہے۔ لیکن ہاں، کچھ اموات ایسی ضرور ہوتی ہیں جو شُکوک و شبہات پیدا کر دیتی ہیں، سوالات اُٹھا دیتی ہیں، اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہیں، روح کو گھائل اور عمر بھر کے لیے آنکھوں میں آنسو دے جاتی ہیں۔ ڈاکٹرز کی غفلت، مطلوبہ طبی آلات اور سازو سامان کی عدم دستیابی، ماہر، قابل اور تربیت یافتہ ڈاکٹرز کی بروقت عدم موجودگی، غیر ذمے دارانہ اور انسانی ہمدردی سے عاری رویے، پیشہ ورانہ نظام کی ناقص صورتحال وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کی اموات کا ذمے دار لواحقین کی جانب سے ڈاکٹرز کو یا دوسرے لفظوں میں اُن سے سرزد ہونے والی غفلت کو ٹھیرا دیا جانا کافی حیران کن اور افسوسناک ہوتا ہے۔ ایک مسیحا کسی مریض کی جان کیسے اور کیونکر لے سکتا ہے؟؟ کوشش تو ڈاکٹرز کی یہی ہوتی ہے کی مریض کی زندگی بچ جائے۔ لیکن پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جان لینے جیسا سنگین الزام مسیحائوں پر لگا دیا جاتا ہے۔ بہر حال، لگائے گئے ایسے الزامات میں کتنی صداقت ہوتی ہے اس کا فیصلہ تو چھان، بین کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ چھان، بین کرے کون ؟؟ اسپتال انتظامیہ خود اپنے طور پر انتہائی رازداری اور خاموشی سے معاملے کی تحقیق کرتی ہیں۔ اور پھر۔۔۔ پھر کیا ہوتا ہے، کوئی نہیں جان پاتا، کچھ پتا نہیں چل پاتا۔ اسپتالوں کا کام زور و شور سے جاری و ساری رہتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد اسیِ نوعیت کا دوسرا واقعہ روُنما ہو جاتا ہے، پھر تیسرا، چوتھا، پا نچواں اور پھر چھٹا اور ساتواں، غرضیکہ لاپروائی اور غفلتوں کے نہ تھمنے والے سلسلے برس ہا برس چلتے ہی رہتے ہیں۔
نجی اسپتالوں میں اگر پڑھے لکھے، کھاتے پیتے، سمجھ بوجھ، فہم و فراست اور اثر رسوخ رکھنے والوں کا کوئی اپنا اُن سے بچھڑ جائے اور الزام غفلت کا لگے تو پھر بحث ومباحثہ، ڈانٹ ڈپٹ، گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا اور تھانہ کچہری جیسے معاملات دیکھنے میں آ جاتے ہیں لیکن اگر مرنے والے کسی لاچار بیمار شخص نے سرکاری اسپتال میں (بوجہ غفلت) دم توڑا ہے تو پھر تو بیچارے غریب، ان پڑھ، بے بس و مجبور لواحقین کو تو شاید یہ پتا ہی نہیں چل پاتا اُن کا پیارا مرا کیسے ہیں۔ طبی معاملات اس قدر پیچیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں (یا بنا دیے جاتے ہیں) کہ سیدھے، سادے عام لوگوں کو بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ عوام کو کیونکہ پیچیدہ طبی معاملات کی سمجھ نہیں ہوتی اس لیے ڈاکٹرز انہیں جو بتا دیتے ہیں وہ اس پر یقین کر لیتے ہیں۔ اُن بیچاروں کو اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ وہ اس حوالے سے کچھ سوچ بھی سکیں اور معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں۔ بس روتے، دھوتے میت کو واپس اپنے گھر، اپنے گائوں، اپنے دیہات لے جاتے ہیں اور کفن دفن کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹرز اور اسپتال انتظامیہ صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اسپتالوں میں یہ بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کم عمر، نا تجربہ کار اور غیر تربیت یافتہ ڈاکٹروں کو ایسے مقامات یا شعبوں میں تعینات کر دیا جاتا ہے کہ جہاں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریض موجود ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے اس کا جواب تو اُس اسپتال کی انتظامیہ ہی بہتر طور پر دے سکتی ہے۔ دیکھنے میں ڈیوٹی پر موجود کچھ ایسے ڈاکٹر بھی آتے ہیں جنہوں نے ہاتھوں میں موٹی سی ایک بھاری بھرکم کتاب پکڑی ہوتی ہے اور اپنے سامنے بیڈ پر لیٹے مریض کے مرض کے بارے میں اُس کتاب سے رہنمائی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ عمل کتنا مناسب یا غیر مناسب ہے اس پر تو طبی امور پر دسترس رکھنے والے ماہرین ہی سے پوچھا جا سکتا ہے۔ بہر حال اس منظر کو دیکھنے والی عام آنکھ اور ایک عام ذہن پر اس کے مثبت اثرات قائم نہیں ہوتے۔
اصل سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے اسپتال پیشہ وارانہ قواعد و ضوابط اور اصولوں کی پابندی کر رہے ہیں۔ کس حد تک اخلاقی، قانونی، معاشرتی اور انسانی قدروں کی پاسداری عمل میں لائی جارہی ہے۔ اور یہ سوال بھی کہ کیا ہمارے یہاں رائج صحت سے جڑے نظام میں ایسے طریقہ کار وضع ہیں کہ جن کی بابت متنازع معاملات کی خود کار طور پر باآسانی نشاندہی ہو سکے، بہت آسانی سے یہ پتا چل سکے کہ اسپتالوں یا ڈاکٹرز پر لگے کسی بھی الزام کی اصل حقیقت کیا ہے، سچ اور جھوٹ کا پتا چلایا جا سکے۔ مانیٹرنگ کے جدید نظام کے تحت اسپتالوں (بالخصوص سرکاری اسپتالوں) میں ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ مانیٹر کیا جاسکے کہ کیا آپریشن تھیٹرز میں تمام تر ـ Standardized Protocols کو پورا کیا جارہا ہے۔ نجی اسپتالوں میں مریضوں کے قیام کو بلا ضرورت طول تو نہیں دیا جا رہا کہ آخر میں بل کا حجم کئی گُنا بڑھایا جا سکے۔ ڈاکٹر مریضوں کو وہی دوائی لکھ رہے ہیں جو اثر کرتی ہیں یا پھر فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے دی جانے والی مراعات پر میڈیکل اسٹوروں پر موجود ہر دوا فروخت کروا رہے ہیں۔ میڈیکل پیشے سے وابستہ خامیوں، خرابیوں (خوبیوں پر بھی) بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن مسائل کی نشاندہی کے ساتھ، ساتھ اُن کے حل کی تلاش بھی بہت ضروری ہے۔ حل نہایت سیدھا اور آسان ہے اور وہ یہ کہ اسپتال سے وابستہ ہر وہ شخص جو غفلت، لاپروائی، غیر ذمے دارانہ رویوں اور سوچ کا شکار ہے اُسے چاہیے کہ اپنے اندر سوئے ہوئے انسانی جذبات اور احساسات کو جگانا شروع کرے۔ خود احتسابی کے عمل کو اپنانا شروع کرے۔ سوچے کہ وہ ایک
ایسے پیشے سے وابستہ ہے جس سے لوگوں کی زندگی اور موت جڑی ہوئی ہے۔ غافل، مغرور اور انسانی جان کی قدرو قیمت سے نا آشنا ڈاکٹرز مسیحائی کے معنی اور مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کوشش یہ سمجھنے کی بھی کی جائے کہ انسانی زندگی کوئی ٹی وی یا ٹیپ ریکارڈر نہیں کہ جسے کوئی مکینک لاپروائی سےRepair کرتے ہوئے دوبارہ لائے جانے کی راہ ہموار کرلے اور پھر کسی دن کسٹمر کو یہ مشورہ بھی دے دے کہ اب مشین ناکارہ ہوگئی ہے، ٹین ڈبے والے کو بیچ کر نئی لے لو۔ اور نہ ہی انسانی علاج معالجے کا عمل سیر و تفریح پر بنا کوئی موڈی پروگرام ہے جسے جب چاہا Okay اور جب چاہے Cancel کر دیا جائے۔ طب کا پیشے معتبر ہونے کے ساتھ، ساتھ ایک انتہائی حساس، نازک اور دوسرے پیشوں سے قطعاً مختلف ہے۔ اسپتالوں کا کام زندگی کے دیے کو روشنی بخشنا ہوتا ہے اگر موت کی علامت کے طور پر گردانے جائیں تو ایک قیامت ہی آجائے۔ زندگیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اسپتال انتظامیہ پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ایسی پالیسیاں اور طریقہ کار اپنائے جائیں جو شفافیت کو یقینی بناسکیں اور عوام کے اعتماد میں اضافے کا موجب بن سکیں۔ اسپتال مناسب تشہیر کاری کے تحت عوام کو اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی دیں۔ غلطیاں اگر سرزد ہو بھی جائیں تو اُن پر پردہ پوشی کے بجائے اُن سے سبق سیکھا جائے اور روک تھام کے سلسلے میں فوری اور دیرپا اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ زندگی خوبصورت ہے، اہم اور انمول بھی، چاہے وہ ڈاکٹر کی ہو یا پھر سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ڈاکٹر کے ہاتھوں علاج پاتے کسی غریب، مجبور، بے بس و لاچار مریض کی۔