اسلام میں ارتداد کی سزا، ہجوم کا قانون ہاتھ میں لینا

987

پنجاب کے ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے ایک شخص کی ہلاکت کے واقعے کے بعد پولیس نے 15 مرکزی ملزمان کی شناخت کر کے گرفتار کر لیا ہے۔ پنجاب پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کی اتوار کو جاری پریس ریلیز کے مطابق ’ان گرفتار ملزمان کو اینٹوں اور ڈنڈوں سے شہری اسلم پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے‘۔ اس واقعے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہجوم کے تشدد اور قانون ہاتھ میں لینے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں چنوں میں واقعے کے ذمے داروں اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے اہلکاروں کے خلاف پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ میاں چنوں میں مبینہ توہین مذہب کے الزام میں ہجوم نے تشدد کر کے ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس سے قبل دسمبر 2021 میں سیالکوٹ میں توہین رسالت کا الزام لگا کر سری لنکن انجینئر کو بے رحمی کے ساتھ ہجوم نے قتل کردیا تھا اور بدنامی کا داغ پاکستان کے ماتھے پر لگا اور اب میاں چنوں میں ہونے والاواقعے کو دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ نے نمایاں جگہ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں مسلمان طالبہ کا واقعہ غیر اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس واقعے پر پاکستانی علماء کرام کو نئی ایس او پیز تیار کرنا ہوں گی۔ ایسے نعروں پر پابند ی لگانی ہوگی جو لوگوں کو مشتعل کرتے ہوں، لوگ خود ہی فیصلہ کرلیتے ہیں کہ فلاں شخص نے توہین رسالت یا توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہے۔ ان طاقتوں کو جو مخالف سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی سیاسی عفریت پالتے ہیں اور جب وہ عفریت اپنی درندگی پر اترتا ہے اور قابو سے باہر ہوجاتا ہے تو اس کے خلاف ہر کارروائی اسے مزید تقویت بخشتی ہے۔ مقتدر قوتوں نے سیاسی قوت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ایک مذہبی عفریت کو فیڈ کیا اب وہ سوچ اس مخصوص جماعت کے ہاتھ سے نکل گئی ہے اور ہر شخص خود یہ فیصلہ کررہا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لے رہا ہے۔ یہاں ہم ایک عالم دین کے مضمون کو نقل کریں گے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک مرتد کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے شکوک و شبہات کو علماء کے سامنے بیان کرے علماء اس کی تشکیک کو دور کریں اگر وہ اس کے باوجود اپنے ارتداد پر اصرار کرے تو علماء اس کے قتل کا فتویٰ دیں گے۔ لیکن اس پر عمل درامد حکومت کرے گی۔ علماء اپنے ہاتھ میں تلوار یا بندوق لے کر نہیں بیٹھتے۔ کہ اپنے فیصلے پر خود عملدرامد کریں۔ نہ ہی عوام کا فرض ہے کہ وہ خود ہی فتویٰ صادر کریں اور خود ہی سزا دے دیں۔ دارالعلوم دیوبند کے فتاویٰ میں ایک حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ترجمہ: ’’سیدنا معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ جب آپؐ نے ان کو یمن بھیجا تو فرمایا: جو شخص اسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے، اسے اسلام کی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اور اگر توبہ نہ کرے تو اس کی گردن اڑادو، اور جو عورت اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے، اسے بھی دعوت دو، اگر توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلو، اگر توبہ سے انکار کرے تو برابر توبہ کامطالبہ کرتے رہو (یعنی اس کو قتل نہ کرو)‘‘۔ (مجمع الزوائد)
ایک بھارتی عالم دین ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی نے یہ مضمون لکھا ہے وہ ریاض سعودی عرب میں رہتے ہیں، ان کے بیان کے مطابق تمام مکاتب فکر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اسلامی حکومت مرتد کو قتل کرے گی اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: اسلامی نقطۂ نظر میں مذہب اسلام کو چھوڑنا یعنی مْرتَد ہوجانا انسان کے لیے ایسی بڑی مصیبت ہے جو دنیا وآخرت ہر اعتبار سے انسان کو برباد کرنے والی ہے۔
اگر کوئی شخص اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہوجائے تو پہلے اسے دوبارہ اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی جائے گی اور حکمت وبصیرت کے ساتھ ہر ممکن کوشش کی جائے گی کہ وہ دوبارہ اسلام اختیار کرلے تاکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے دردناک عذاب سے بچ جائے۔ اگر مرتد اسلام کو دوبارہ اختیار کرلیتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھنا ہوگا لیکن اگر کوئی مرتد دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو جس طرح دنیاوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باغی کو بھی اسلامی حکومت قتل کرائے گی جیساکہ ابتدائے اسلام سے آج تک مفسرین، محدثین، فقہاء وعلمائے کرام نے قرآن وحدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں فیصلہ فرمایا ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے مانعینِ زکوٰۃ کی جو سرکوبی کی وہ اسی حکم کے تحت کی۔ مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی اسی محاربۃ اللہ ورسولہ کے تحت آتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کردو‘‘۔ (بخاری، ترمذی، ابودائود، ابن ماجہ، مسند احمد)۔
سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ کو نبی اکرمؐ نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بناکر بھیجا جبکہ سیدنا معاذؓ کو ان کے بعد دوسرے صوبے کا گورنر بناکر بھیجا۔ سیدنا معاذؓ سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ سے ملاقات کے لیے گئے۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ نے اکرام ِ ضیف کے لیے سیدنا معاذؓ کے لیے تکیہ ڈالا اور سیدنا معاذؓ ابھی بیٹھ رہے تھے کہ انہوں نے سیدنا ابوموسیٰؓ کے پاس ایک شخص بندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا یہ کون ہے؟ سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا پھر مسلمان ہوا، اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ نے کہا اے معاذ! بیٹھ جائو۔ سیدنا معاذؓ نے فرمایا کہ جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، میں نہیں بیٹھوں گا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔3 بار سیدنا معاذؓ نے یہی فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور وہ قتل کردیا گیا (بخاری و مسلم)۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسولؐ ہوں، خون بہانا جائز نہیں مگر 3 چیزوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب پر۔ شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے۔ کسی کو قتل کردے تو اس کے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ اپنے دین اسلام کو چھوڑکر ملت سے خارج ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم، ابوداود، ابن ماجہ، مسند احمد)۔
علامہ جلال الدین سیوطیؒ سیدنا عمر فاروقؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب نبی اکرمؐ کی وفات ہوئی اور مدینہ منورہ کے اردگرد بعض افراد مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لیے کھڑے ہوگئے۔
سیدنا عمر فاروقؓ وقت کی نزاکت کے پیش نظر ان کے قتل میں تامل کررہے تھے لیکن سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ اگرچہ نبی اکرمؐ کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی لیکن اللہ کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار کو پکڑسکے گا (تاریخ الخلفاء)۔ اس واقعہ کے بعد سیدنا صدیق اکبرؓ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے اجماع صحابہ کے باعث مرتد قرار دیا گیا تھا، چنانچہ ایک لشکر سیدنا خالدبن ولیدؓ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتار دیا (فتح الباری)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک مرتبہ اہل عراق میں سے ایک مرتد جماعت کو گرفتار کیا اور ان کی سزا کے بارے میں مشورے کے لیے سیدنا عثمانؓ کو خط لکھا۔ سیدنا عثمانؓ نے جواب میں تحریر کیا کہ ان پر دین حق پیش کرو، اگر قبول کرلیں تو ان کو چھوڑدو ورنہ قتل کردو۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا علی مرتضیٰؓ نے بعض مرتدین کو قتل کیا (بخاری)۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ مرتد کو قتل کیا جائے گا۔ اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔
امام ابوحنیفہؒ کے عقیدہ کی سب سے مشہور ومعروف کتاب تحریر کرنے والے مصری حنفی عالم امام طحاویؒ امام ابوحنیفہؒ اور علمائے احناف کا قول نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مرتد کے بارے میں علماء کی آراء مختلف ہیں کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اگر حاکم مرتد سے توبہ کرنے کا مطالبہ کرے تو اچھا ہے، توبہ نہ کرے تو قتل کردیا جائے۔ امام ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسف اور امام محمدؒ کا یہی قول ہے۔ علماء کی دوسری جماعت فرماتی ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے جیساکہ دار الحرب کے کفار کو جب دعوت اسلام پہنچ جائے تو پھر ان کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت نہیں۔ نہ پہنچی ہوتو دعوت دی جائے اور توبہ کا مطالبہ اس وقت واجب ہے جبکہ کوئی شخص اسلام سے بے سمجھی کی وجہ سے کفر کی طرف چلا جائے۔ رہا وہ شخص جو سوچے سمجھے طریقہ پر اسلام سے کفر کی طرف چلاجائے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر وہ میرے اقدام سے پہلے ہی توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردوں گا (طحاوی، کتاب السیر)۔
غرض یہ کہ قرآن وحدیث اور خلفائے راشدین کے اقوال وافعال کی روشنی میں اہل السنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر اور اسی طرح شیعہ مکتب فکر کے علمائے کرام نے یہی فیصلہ فرمایا ہے کہ اسلامی حکومت مرتد کو قتل کرائے گی اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں واپس آنے کے لیے تیار نہیں۔
اسلام میں مرتد اور توہین دین کرنے والوں کی سزا متعین ہے لیکن اس سزا پر عمل درامد کرنا اسلامی حکومت کا اختیار ہے عوام کا نہیں علماء کرام کو فساد فی الارض سے بچنے کے لیے عوام کی تربیت کرنا ہوگی۔ ہماری حکومت تو یہ کام نہیں کرسکتی۔