اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں پیپلز پارٹی کے رہنما اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، انکے اہلخانہ اور دیگر شریک ملزمان کی ضمانت سے متعلق کیس پر سماعت ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس پر سماعت کی۔ دوران سماعت آغا سراج درانی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ میرے موکل پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس بنایا گیا، ہمارا کیس پیپلز پارٹی رہنما خورشید شاہ پر لگے الزامات جیسا ہے، سپریم کورٹ نے خورشید شاہ کی ضمانت منظور کی ،نیب کی جانب سے آغا سراج درانی پر ایک ارب ساٹھ کروڑ کا الزام لگایا گیا ہے، 10 کروڑ مالیت کی گھڑیاں بتائی جا رہی ہیں، آغا سراج درانی پر بے نامی دار رکھنے کا الزام ہے،ایک ارب روپے کی چند جائیدادیں آغا سراج درانی کے بے نامی داروں کے کھاتے میں ڈالی گئی ہیں۔
نیب ریفرنس میں سراج درانی کی گاڑیوں کی مالیت 12 کروڑ ظاہر کی گئی ہے،بے نامی اثاثہ جات کا آغا سراج درانی سے کوئی تعلق نہیں ہے، میرے حساب سے آغا سراج درانی کے اثاثے 30 سے 35 کروڑ ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آغا سراج درانی نے 82ملین کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ ظاہر کی، آپکو وضاحت تو دینی ہے کہ کروڑوں کے اثاثے کیسے بنائے، دس کروڑ مالیت کی گھڑیاں کہاں سے برآمد ہوئیں؟جس پر آغا سراج درانی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میرے موکل اور انکے اہل خانہ کے پاس نو سو ایکڑ زرعی اراضی ہے، اثاثہ جات کو دو دو مرتبہ بھی ظاہر کیا گیا ہے، آغا سراج درانی کے جو ایک ارب کے بے نامی دار ظاہر کیے گئے ہیں وہ ممکن ہے کسی اور کے ہوں، گھڑیاں آغا سراج درانی کے لاکر سے برآمد ہوئی ہیں، 1940اور 1950 ماڈل کی رولکس گھڑیاں ہیں، گھڑیوں کی مالیت کا تعین کراچی کی نجی کمپنی کو گھڑیوں کی تصاویر بھجوا کر کرایا گیا، نیب نے آغا سراج درانی کی انکم کا تعین درست نہیں کیا، 40 سال پہلے جو قیمت تھی وہ آج نہیں ہے، ایف 6 میں گھر کی قیمت 16 لاکھ تھی اب وہ چالیس کروڑ کا ہے،پچاس سال پہلے جو گھڑیاں یا ڈالرز خریدے گئے انکی مالیت تبدیل ہو چکی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آغا سراج درانی کب کب پبلک آفس ہولڈر رہے ہیں، جن جائیدادوں کا الزام ہے کیا وہ ایف بی آر میں ظاہر ہیں،جس پر آغا سراج درانی کے وکیل نے موقف اپنایا کہ 1988، 1993اور پھر 2008سے آج تک آغا سراج درانی پبلک آفس ہولڈر ہیں، کُل گیارہ جائیدادیں ہیں اور ساری ایف بی آر میں ظاہر ہیں، انکم ٹیکس ریکارڈ بھی آغا سراج درانی کی فیملی کی انکم کو درست انداز میں ظاہر نہیں کرتا،زرعی آمدن انکم ٹیکس ریکارڈ میں ظاہر نہیں ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے جو بے نامی دار ظاہر کیے گئے ہیں کیا وہ آغا سراج درانی کے لیے کام کرتے ہیں، نیب کے مطابق منور آغا سراج درانی کا گن مین ہے، منور آغا کے پاس کئی ملین موجود ہیں، وکیل آغا سراج درانی نے موقف اپنایا کہ گن مین تو نیب کہتا ہے، منور سیاسی کارکن ہے، معاملہ قابل تفتیش ہے صرف کہہ دینے سے ثابت نہیں ہوتا،کیا یہ ممکن نہیں کہ جو آغا سراج کے ساتھ کام کر رہا ہے وہ ان سے بالا اپنی سرگرمیاں کر رہا ہو۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ منور مبینہ گن مین کے ڈیفنس کے پلاٹ کی فوٹو کاپی آپکے قبضے میں کیا کر رہی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ مجھے تو تعجب اس بات کا ہے کہ نیب نے کروڑوں روپے مالیت کی شاٹ گنز کو شامل نہیں کیا، آج ہالینڈ اینڈ ہالینڈ کی شاٹ گن کی مارلیت کروڑوں روپے ہے، وکیل ملزم نے بنیادی چیز یہ بتانی ہے کہ شہری جائیدادیں کیسے بنائی گئیں، گاڑیوں کے دستاویزات بھی آغا سراج درانی سے برآمد ہوئے۔ سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ آغا سراج کچھ گاڑیوں کی ملکیت سے انکار نہیں کرتے۔اس دوران نیب پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ آغا سراج درانی کو ضمانت درکار نہیں، آغا سراج جیل میں نہیں بلکہ اپنے گھر میں مکین ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ قانون سب کے لئے برابر ہے ،عدالت گھر کو جیل قرار دینے والے معاملے کو بھی دیکھے گی، عدالت عظمیٰ نے معاملہ پر مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔