کراچی (رپورٹ: حماد حسین)پاکستان میں دہشت گردی عالمی سازشوں، غربت اورگروہی مفادات کی وجہ سے ہو رہی ہے‘ دہشت گردی مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے نہیں ہے‘ نظام جبر نے جرائم کو جنم دیا‘ عوام کو اظہار رائے کی آزادی نہیں‘ صرف امیر طبقے کو تمام مراعات حاصل ہیں‘ استعماری طاقتیں مسلم ممالک کو دہشت گردی کی آڑ میں تباہ و برباد کرتی ہیں اور پھر ان کے وسائل پر قبضہ کرتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے نائب امیر کراچی اسامہ رضی، مسلم لیگ ق سندھ کے صدر طارق حسن اور سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد احمد قادری نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ’’پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ اسامہ رضی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں اس وقت جو تشدد یا جرائم، بڑھتی ہوئی خودکشیاں، اسٹریٹ کرائمز، منشیات کا استعمال، چوری اور ڈکیتیاں ہورہی ہیں‘ یہ ساری چیزیں معاشرے کے اصل امراض نہیں ہیں بلکہ یہ مرض کی علامات ہیں ان علامات کو نظام جبر نے پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے جرائم کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے‘ بنیادی طور پر جبر کا نظام اور جبر کی حکمرانی معاشرے کے لوگوں کو چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم کرتی ہے‘ اظہار رائے پر پہرے بٹھاتی ہے ‘ فکری آزادی کو سلب کرتی ہے اور معاشرے کے چند مقتدر اور حکمران طبقات ہی کو آزادی فراہم کرتی ہے انہی کو زندگی کی ساری خوشیاں اور بنیادی سہولیات حاصل ہوتی ہیںاور یہ ہی طبقہ معاشرے کے ہر فرد پر اپنی بالادستی قائم کرتا ہے‘ اس کے نتیجے میں پورے معاشرے کے بجائے صرف ایک ہی طبقہ آگے بڑھتا اور ترقی کرتا ہیجبکہ بقیہ پوری قوم ظلم اور ناانصافی، محرومی در محرومی، غلامی در غلامی کی چکی میں پستی ہے۔ طارق حسن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی بھی ایک ایسا قابل نفرت اور برا عمل ہے جو بہت تیزی سے اس دنیا میں پھیل رہا ہے اور اس کو جتنا زیادہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘وہ اتنا ہی تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہا ہے‘ اس کا کوئی علاقہ اور مذہب نہیں ہوتا ہے‘ بس جہاں پانی اور کھاد ملی‘ دہشت گردی کی جڑوں سے پتے، شاخیں اور تنا نکل آیا اور جلد ہی تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا‘ دنیا کے صاحبِ اختیار اور کرتا دھرتا لوگ دہشت گردی کے پتوں اور شاخوں کو تو کاٹنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں لیکن دہشت گردی کی جڑ کو ختم کرنے کی بالکل بھی کوشش نہیں کرتے یا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ یہ لوگ دہشت گردی کی آڑ لے کر مختلف ممالک پر اپنی طاقت کے بل پر حملہ کرتے ہیں اور ان کو تباہ و برباد کرتے ہیں‘ ان کے وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور ان ممالک کو دوبارہ تعمیر کرنے کے نام پر ان ممالک سے اپنے ملک کی کمپنیوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دلواتے ہیں اور خوب منافع کماتے ہیں اور اپنی معاشی حالت کو بہتر سے بہتر بناتے ہیں‘ اسی طرح دہشت گرد تنظیمیں پہلے خود قائم کرواتے ہیں‘ انہیں اسلحہ فروخت کرتے اور خوب منافع کماتے ہیں اور پھر ان دہشت گرد تنظیموں کو خود ہی ختم کرنے کا ڈراما رچاتے ہیں اور اس طرح یہ ممالک امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور یہ صاحب اختیار اور کرتا دھرتا ممالک مسلمانوں کے ساتھ یہ کھیل کھیل رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘ کاش مسلمان سوچیں اور سمجھیں‘ جہاں خود غرضی، بے حسی، لالچ اور حرص و ہوس نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں‘ دہشت گردی کی وجوہات حکمران طبقہ ہے‘ معاشرے میں دہشت گردی کی وجوہات میں وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سرمایہ دارانہ نظام، بے روزگای اور سب سے ایک اہم ترین وجہ مذہب کا غلط استعمال اور ان کا آپس میں ٹکرائو اور فرقہ واریت ہے۔ ڈاکٹر محمد احمد قادری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں2 طرح کی دہشت گردی ہورہی ہے‘ ایک وہ جو بین الاقوامی سازشوں کے ذریعے کرائی جا رہی ہے اور دوسری وہ جو نادان اور مجبور افراد کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کے ماہرین یہ جانتے ہیں کہ آج کی دنیا مفادات کے حصول کی بہترین مثال ہے اور جو جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوئم سے گزری ہے اس میں بھی مفادات کا عمل دخل تھا اور اس نے دنیا میں تابکاری کے اثرات چھوڑے ہیں‘ پاکستان کی بار بار تبدیل ہونے والی خارجہ پالیسی نے پاکستان کی ساکھ کو دنیا بھر میں نقصان پہنچایا ہے‘ بین مفاداتی گروہ نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے اس لیے منتخب کیا کیوں کہ اس میں دہشت گردی کرانا زیادہ آسان ہے‘ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات میں عدم استحکام اس لیے آتا ہے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو دستور اور عوام کے ساتھ مضبوط نہیں کیا جس طرح ہونا چاہیے تھا‘ اندرونی دہشت گردی کی بات کی جائے تو اس کی کئی وجوہات ہیں‘ اس میں غربت، افلاس، تعلیم کی کمی اور مفاداتی گروہ کا مستحکم ہونا ہے‘ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے سے نظریاتی اور ملکی مفادات کے بجائے ذاتی اور سیاسی مفادات کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے جبکہ قومی مفادات کے لیے جمع ہونے کی شاید ہی کوئی مثال ملے گی‘ اس کی وجہ سے حکومت اور حزب اختلاف میں ہمیشہ تنائو رہتا ہے‘ پاکستان میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے یہ کہنا غلط ہے‘ مذہبی عقائد پاکستان بننے سے پہلے بھی تھے اور مذہبی منافرت اور مذہبی مخالفت پہلے بھی تھی‘ آج دینی عصبیت کی جگہ مذہبی عصبیت نے لے لی ہے‘ تعلیمی اداروں میں بچوں کو صرف امتحانات پاس کرنے کی تیاری کرائی جا رہی ہے ‘ ہمارے تعلیمی نصاب میں قومی نظریے کو نمایاں رکھنا چاہیے۔