مذہبی جماعتیں حقیقت ہیں

888

خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علما السلام (ف) کی کامیابی پر جہاں لبرل و سیکولر حلقے پریشانی سے دوچار ہیں وہیں حکومتی حلقوں میں بھی کہرام مچا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے جے یو آئی (ف) کی کامیابی پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی اور ٹی ایل پی جیسی جماعتوں کی کامیابی ملک کو پیچھے کی طرف لے جائیں گی۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ پی ٹی آئی کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی ملک کو دودہائی پیچھے لے جاچکی ہے پھر ان کا موجودہ موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کرنے کا حق سیکولر اور لبرل خیال کے حامل لوگوں تک محدود ہونا چاہیے۔ ویسے جب بھی ملک میں کسی بھی مذہبی موضوع پر بات ہوتی ہے تو یہ مذہبی جماعتوں کو مطعون کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں لیکن جب جمہوری طور پر عوام کی اکثریت مذہبی جماعتوں کا ساتھ دیتی ہے تو امریکا اور یورپ کے پروردہ یہ لوگ مذہبی انتہا پسندی کا نعرہ لگا کر دینی جماعتوں کو دیوار سے لگا دینے کے درپے ہوتے ہیں۔ مجھے آج بھی خوب یاد ہے کہ 2002ء کے انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے تو 12 گھنٹوں میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کو دیگر جماعتوں پر سبقت حاصل تھی۔ رات 12 بجے تک جب ایم ایم اے 20 سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوچکی تھی تو ایک ٹی وی چینل پر بیٹھے ہوئے مبصر کاوس جی بڑے چراغ پا ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا ملا لوگ جیت رہا ہے اس ملک کا اللہ حافظ۔ کاوس جی پارسی تھے اور ان کی یہ سوچ کہ اس ملک میں مذہبی جماعتوں کو کامیابی حاصل نہ ہو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے مگر فواد چودھری جیسے لوگ جن کا لیڈر اس ملک کو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے، اس قسم کا بیان دے کر اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ ویسے ان کے لیڈر کے قول و فعل میں بھی بڑا تضاد ہے۔ ریاست مدینہ کی بات تو کرتے ہیں مگر چہرے سے مسلمان نظر ہی نہیں آتے، کیوں کہ ڈاڑھی رکھنا انبیا کی سنت ہے اور جو شخص سنت کی پیروی نہ کرے اس کے بارے میں رسول اللہؐ کا یہ قول کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے۔ جو نکاح کے موقع پر برسرِعام پڑھا جاتا ہے۔ ترجمہ: ’’جو میری سنت کو نہ ماننے وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اب خود وزیراعظم یہ فیصلہ کرلیں کہ وہ ریاست مدینہ کا دعویٰ کرکے کسے دھوکا دے رہے ہیں۔ بلاشبہ وہ پوری قوم کو دھوکا دے چکے ان کے قول و فعل میں تضاد ہے اور قرآن کریم کا یہ حکم کس کو یاد نہیں۔ ترجمہ: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو وہ بات کہتے کیوں ہو جس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ مجھے خوب یاد ہے کہ موصوف کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے میں خودکشی کرنے کو ترجیح دوں گا مگر وہ ڈھٹائی کے ساتھ یوٹرن لے چکے، قوم تو ان کی عاقبت نااندیشی کا خمیازہ بھگت ہی رہی ہے مگر میں تو یہاں تک ڈرتا ہوں کہ ان کا پانچ سالہ دور حکومت مکمل ہونے تک اگر یہ ملک بچا رہے تو بڑی بات ہے۔
خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی (ف) کی کامیابی سے موجودہ حکومت جس قدر خوفزدہ ہے وہ بلاجواز نہیں کیوں کہ عددی اعتبار سے جے یو آئی (ف) کی کارکردگی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے جب کہ جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی خاصا متاثرین ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ مل کر انتخاب میں حصہ لیتیں تو نتائج حیران کن ہوسکتے تھے۔ پھر یہ لوگ اس بات کو کیوں بھول گئے کہ 2018ء کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں نے جو ووٹ حاصل کیے تھے وہ بہت نمایاں تھے۔ یہ الگ بات کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کے اعتبار سے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب میں نمایاں فرق رہا۔ اس لیے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے اگر دینی جماعتیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیں تو نتائج پوری دنیا کے لیے حیران کن ہوسکتے ہیں۔
یہ المیہ رہا ہے کہ دینی جماعتوں کو اگر پارلیمنٹ میں نمایاں حیثیت نہ ملے تو سیکولر طبقہ بغلیں بجاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ عوام کی اکثریت نے انہیں مسترد کردیا لیکن جب بھی پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں مذہبی جماعتیں جمہوری طور پر کامیاب ہوتی ہیں تو ان کا راستہ روکا جاتا ہے۔ 2002ء کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل ایک بڑی جماعت بن کر اُبھری مگر ہماری اسٹیبلشمنٹ کو یہ قبول نہ تھا کہ وہ مرکز میں حکومت کے ایوانوں تک پہنچے۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے دوران جب قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات ہورہے تھے تو قاضی صاحب نے آخری تجویز یہ دی تھی کہ چودھری صاحب آپ ملک کے وزیراعظم، مولانا فضل الرحمن نائب وزیراعظم، مولانا نورانی سینیٹ کے چیئرمین اور لیاقت بلوچ قومی اسمبلی کے اسپیکر ہوں گے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ (ق) نامزد کرتے مگر ارباب اختیار کو یہ تجویز پسند نہ آئی۔ حالاں کہ میں آج بھی یہ سوچتا ہوں کہ اگر یہ تجویز مان بھی لی جاتی تو ملک حقیقی معنوں میں جمہوری ڈگر پر رواں دواں ہوسکتا تھا کیوں کہ چودھری شجاعت میں سیاسی فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود تھی جو عوام اور ملک کے مفاد میں ثابت ہوئی اور جس کا اظہار انہوں نے اپنے چند ماہ کے دور وزارت
عظمیٰ میں کیا۔ یہ تو مملکت خداداد پاکستان کی بات ہے ترکی میں موجود نام نہاد اسلام پسندوں کی حکومت مغرب کی آنکھ میں کھٹکتی ہے۔ جب جمہوری طور پر طیب اردوان کی حکومت کو متزلزل نہ کیا جاسکا تو فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کی گئی جس کے پیچھے مغرب اور امریکا کی کارفرمائیاں تھیں۔ جب مصر میں ’’اخوان‘‘ نے جمہوری طور پر حکومت حاصل کی تو مغرب کیا خلیجی ریاستیں بشمول سعودی عرب اس کے درپے ہوئے اور جب فوجی جرنیل نے جمہوری حکومت کو معزول کیا تو یہودونصاریٰ کی طرح شیوخ کے دل بھی ٹھنڈے ہوئے، یہی نہیں مصر کے منتخب صدر محمد مرسی پر جس طرح مقدمہ چلا اور جن حالات میں ان کی موت واقع ہوئی اس پر حقوق انسانی کی تنظیمیں اور جمہوریت کے علمبردار مہربہ لب نظر آئے۔ یہی کچھ تیونس اور الجزائر میں ہوا اور دور کیوں جاتے ہیں۔ آج کل افغانستان میں طالبان برسراقتدار ہیں۔ ملک میں امن وامان ہے مگر بین الاقوامی سطح پر اس حکومت کو تسلیم نہ کرے اور اس کی معاشی اور اقتصادی امداد کو روک کر مذہبی لوگوں کا راستہ روکا جارہا ہے۔
فواد چودھری کو مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا ادراک کریں، عوامی مشکلات کو محسوس کریں، بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری کے بارے میں سرجوڑ کر بیٹھیں اور حل کے لیے سوچیں غیر ملکی مشیروں سے موجودہ حکومت کی جان چھڑوائیں کیوں کہ یہ پنچھی آپ کی حکومت ختم ہوتے ہی اپنے اپنے آشیانوں کی طرف اُڑ جائیں گے۔ آپ کو اگر اسی ملک میں رہنا ہے تو یہاں کے لوگوں سے ہمدردی سے پیش آئیں اور آپ اور آپ کے وزیراعظم ایسا کچھ کرنے میں ناکام ہیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ہو۔ تو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اقتدار سے الگ ہوجائیں کیوں کہ بڑا آدمی وہی ہوتا ہے جو اپنی غلطی کو تسلیم کرے اور اس کا برملا اعتراف بھی کرے۔