سابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سیکیورٹی اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

464

حال ہی میں عہدے سے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو فراہم کردہ سیکیورٹی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردی گئی، درخواست کی سماعت رواں ہفتے ہونے کاامکان ہے۔

مقامی انگریزی اخبار کے مطابق درخواست میں کہا گیا ہے کہ جسٹس (ر) گلزار احمد کو ٹیکس کی رقم سے بھاری سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے جبکہ ان کی مدت کے دوران زیر التوا مقدمات میں مزید 10 ہزار کا اضافہ ہوا اور قانون کی بالادستی سے متعلق فہرست میں پاکستان 130 سے 139 ویں درجے پر آگیا ہے۔

درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابقہ فیصلے کا حوالہ دیا گیا اس قانونی نظیر میں عدالت نے سابق چیف جسٹس محمد افتخار چوہدری کی سیکیورٹی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

فیصلے میں واضح کیا گیا تھا کہ ریٹائر جج مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد صرف عہدے کی خصوصی مراعات حاصل کرسکتے ہیں جو (چھٹیوں، پینشن اور مراعات) سے متعلق سپریم کورٹ ججز آرڈر 1997 میں درج ہے۔

درخواست میں انکشاف کیا گیا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس تصدق حسین جیلانی، انور ظہیر جمالی، ناصر الملک، نواز عباسی، طارق پرویز کی جانب سے سیکیورٹی پروٹوکول استعمال کیا گیا جس کے وہ مستحق نہیں تھے۔

1997 کے آرڈر کے تحت ایک ریٹائر یا عہدہ چھوڑنے والا جج صرف آفیشل ڈرائیور رکھ سکتا تھا، تاہم 2016 میں کی گئی ترمیم اجازت دی گئی کہ ریٹائرڈ جج کی زندگی کے دوران اس کے گھر پر سیکیورٹی گارڈ تعینات رہیں گے تاہم ان کی بیوہ یہ سہولت حاصل نہیں کرسکتی۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کرنے کی تجویز سینئر پولیس افسران اور انٹیلیجنس ایجنسیز کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی کے خدشات کے پیش نظر وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔

چیف جسٹس کی سیکیورٹی سے متعلق اجلاس ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے لکھے گئے خط کے فوری بعد کیا گیا تھا، خط میں سیکریٹری داخلہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس گلزار احمد کی مکمل سیکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یکم فروری کو ریٹائرمنٹ پر سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے سیکریٹری داخلہ کو جسٹس ریٹائرڈ گلزار احمد کی منظوری کے ساتھ ایک صفحے پر مشتمل خط بھیجا گیا جس میں وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر ریٹائرمنٹ کے بعد سابق سی جے پی کی فل پروف سیکیورٹی کا مطالبہ کیا گیا۔

جیورسٹ فاؤنڈیشن کی موجودہ درخواست ایڈوکیٹ ریاض حنیف راہی کے توسط سے غیر سرکاری ادارے نے دائر کی ہے، یہ ادارہ اس سے قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مدت میں توسیع کو بھی چیلنج کر چکا ہے۔

ریٹائرڈ جج کی سیکیورٹی کے خلاف دائر کردہ درخواست کے مطابق جسٹس گلزار احمد 21 دسمبر 2019 سے دو فروری 2022 تک ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس نے وزارت داخلہ سے پولیس اور رینجرز کی مکمل سیکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے، یہ درخواست قبول کرنا وزارت داخلہ کے اختیارات کے ’ناجائز‘ استعمال کے مترادف ہوگا۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ریٹائر جج کو سرکاری سیکیورٹی فراہم کرنے کی اجازت غیر معمولی خدشات کے پیش نظر فراہم کی گئی ہے ذاتی مفادات کی بنا پر خزانے پر بوجھ ڈالا جارہا ہے۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست کی حمایت کے لیے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔

انہوں نے کہا کہ 1975 کے چوہدری ظہور الٰہی کیس میں سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ ’کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے، چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں توسیع کے کیس میں عدالتِ عظمیٰ نے مشاہدہ کیا کہ آپ جتنے بھی بڑے ہو، قانون آپ سے بالاتر ہے‘۔

انہوں نے مزید فیصلوں کا حوالہ دیا کہ ’2012 کے اسٹیل ملز کے کیس میں سے واضح کیا کہ جس شخص عہدہ جتنا اونچا ہوگا وہ اتنا ہی ذمہ دار اور جوابدہ ہوگا’۔

اس سلسلے میں درخواست گزار نے استدعا کی کہ وزارت داخلہ کے 27 جنوری کے خط کو ایک معطل کیا جائے جو سابق چیف جسٹس گلزار احمد کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری سیکیورٹی فراہم کرتا ہے۔