پی آئی اے کے پنشنرز انتہائی کسمپرسی کے عالم میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام پورے کررہے ہیں۔ پنشن ریٹائرز کا تسلیم شدہ حق ہے جبکہ پی آئی اے کی انتظامیہ اس کو خیرات تصور کرتی نظر آتی ہے۔ اگر پنشن کے مقاصد اور فوائد کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت پورے پاکستان میں جہاں جہاں بھی پنشن رائج ہے اُن سب میں بلا کسی تردید کے پی آئی اے کے پنشنرز کی پنشن سب سے کم بلکہ انتہائی کم ہے۔ جو ڈیڑھ اور دو ہزار روپے ماہانہ بھی ہے۔ بڑے بڑے ریٹائرڈ افسران، جنرل منیجر، ڈائریکٹران وغیرہ کی پنشن (ماسوائے کپتان/ پائلٹ، فلائٹ/ انجینئرز اور ایئرکرافٹ انجینئرز کے) بہت کم ہے۔
پی آئی اے میں 8 پنشن فارمولے ہیں۔ جبکہ حکومت میں گریڈ ون سے گریڈ 22 تک کے پنشنرز کے لیے صرف ایک فارمولا ہے۔ حکومتی پنشنرز کی پنشنرز میں عموماً ہر سال کچھ نہ کچھ اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ پی آئی اے میں پنشن انتہا سے زیادہ کم ہونے کے باوجود گزشتہ 14 سال میں صرف 3 مرتبہ معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی آئی اے پنشن کے سلسلے میں اپنے سرکلرز، اپنی یقین دہانیوں اور ایگریمنٹ پر بھی عمل نہیں کرتی۔ کہہ دیا جاتا ہے کہ پی آئی اے کے مالی حالات خراب ہیں۔ حالانکہ پی آئی اے پنشن فنڈ ٹرسٹ 1977ء سے قائم ہے جس میں اربوں روپے موجود ہیں۔ حکومت پاکستان بھی تو مالی بحران میں مبتلا ہے اس کے باوجود وہ اپنے پنشنرز کی پنشن میں مہنگائی اور دیگر عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال اضافہ کردیتی ہے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے پنشنرز کی اس وقت کم از کم پنشن 10 ہزار روپے، EOBI میں ساڑھے 8 ہزار روپے ماہانہ اور بینکوں میں 8 ہزار روپے ماہانہ کم سے کم پنشن مقرر ہے، جبکہ پی آئی اے میں جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ صرف ڈیڑھ اور دو ہزار روپے ماہانہ پنشن مقرر ہے۔ حال ہی میں پی آئی اے انتظامیہ نے 10 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اب جس کی پنشن ڈیڑھ ہزار روپے ہے اس کی پنشن 1650 روپے ہوجائے گی۔ یہ صورت حال بلاتبصرہ پیش کی جارہی ہے۔ اس تمام صورت حال اور ناقابل برداشت مہنگائی کے تناظر میں پی آئی اے کے تمام پنشنرز یہ مطالبات کرنے میں حق بجانب ہیں۔
(1) پی آئی اے پنشنرز کی پنشن، حکومتی پنشنرز کی پنشن کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے کم از کم 10 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے۔ (2) پھر اسی تناسب سے 10 ہزار روپے ماہانہ پنشن پانے والے پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کیا جائے۔ (3) پی آئی اے ہمیشہ وفاقی حکومت کے کنٹرول میں رہی ہے، زیادہ تر وزارت دفاع اور اب محکمہ ہوا بازی کے زیر انتظام ہے۔ لہٰذا ہر سال جب بھی حکومتی پنشنرز کی پنشن میں اضافہ ہو پی آئی اے پنشنرز کی پنشن میں بھی اُسی تناسب سے اضافہ کیا جائے۔ (4) پنشن قوائد و ضوابط کے مطابق سابقہ تاریخ سے بحال کی جائے۔ (5) کمیوٹ کردہ پنشن ریٹائرمنٹ کے 10 سال بعد پی آئی اے پنشنرز کو ادا کی جائے جیسا کہ اس سلسلے میں قواعد و ضوابط مرتب ہیں۔ اور حکومت اس پر عمل پیرا ہے۔ ابھی پنشن کے معاملے نے گھمبیر صورت حال اختیار کررکھی تھی کہ پی آئی اے انتظامیہ کی طرف سے ایک اور افتاد پی آئی اے ملازمین و سابقہ ملازمین پر آن پڑی ہے اور وہ ہے علاج معالجہ بذریعہ انشورنس کمپنی اور پی آئی اے میڈیکل سلیکشن کی بندش۔
جب یہ خبر گردش کررہی تھی پیارے کے ذمہ داران نے پی آئی اے کے متعلقہ حکام جن میں ڈائریکٹر میڈیکل سروس CHRO، GMPP، GMIR اور CMO وغیرہ CEO صاحب سے رابطہ کیا اور انہیں بھی لکھا اور اخبار میں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور یہ واضح کیا کہ یہ اسکیم پی آئی اے اور پی آئی اے کے ملازمین دونوں کے لیے سودمند نہیں ہوگی۔ لہٰذا اسے رائج کرنے کے بجائے پی آئی اے کے اپنے میڈیکل Set Up کو CMH کی طرز پر بہتر بنائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی Stake Holders (متعلقہ افراد) سے کوئی مشاورت کی گئی۔
پ