مطالعہ حدیث

229

سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوگیا تو نبیؐ میری عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ بھی ساتھ تھے۔ دونوں پیدل چل کر پہنچے تو مجھے بے ہوش پایا۔ تب نبیؐ نے وضو کیا اور جو پانی آپؐ کے اعضاے مبارکہ سے گرا وہ مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا۔ میں نے دیکھا کہ نبیؐ تشریف فرما ہیں۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں اپنے مال کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کروں؟ میں اپنے مال کا کیا فیصلہ کروں؟ آپؐ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ میراث کے بارے میں آیت نازل ہوگئی۔ (بخاری)
نبیؐ کی مصروفیات بے شمار تھیں۔ راتوں کو اْٹھ کر عبادت کرنا، دن کو تعلیم و تربیت اور گھر میں ہوں تو گھروالوں کے ساتھ تعاون کرنا۔ اس کے باوجود اپنے ساتھیوں کے حالات اور ان کی دیکھ بھال سے بھی لاتعلق نہیں رہتے تھے۔ بیماروں کی بیمار پْرسی فرماتے۔ فوت ہونے والوں کے جنازے ادا فرماتے، تنگ دستوں کی ضروریات کا انتظام فرماتے۔ سیدنا جابرؓ کی بیمارپْرسی بھی کی اور ان پر اپنے وضو کا مبارک پانی ڈال کر علاج بھی کردیا۔ سیدنا جابرؓ نے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آیت ِ میراث کے ذریعے حکم نازل فرما دیا۔ کیسا مبارک دور تھا! صحابہ کرامؓ سوال فرماتے تو آسمان سے ان کے سوالوں کے جواب اْترتے اور پھر وہ اْن کو ٹھیک طرح سے عملی جامہ پہناتے۔ آج بھی ہم رب تعالیٰ سے اپنا تعلق استوار کرسکتے ہیں۔ قرآن وسنت پر عمل کریں اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ قرآن وسنت کے جس حکم پر بھی عمل ہو وہ قربِ الٰہی کا ذریعہ اور دعا کی قبولیت کا وسیلہ ہے۔ اس وسیلے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
nn