لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے اسباب میں مہنگائی، بے روز گاری، عدم مساوات، طبقاتی تقسیم، معاشرتی گھٹن، دولت کی ہوس، قناعت سے گریز اور سب سے بڑھ کر خالق و مالک اور دین سے دوری نمایاں ہیں، ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر محمد جاوید قصوری، ممتاز دانشور، کالم نویس اور ٹی وی میزبان سجاد میر اور قومی زبان تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر محمد شریف نظامی نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ آپ کی رائے میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے اسباب کیا ہیں؟ جماعت اسلامی وسطی پنجاب کے امیر محمد جاوید قصوری نے ’’جسارت‘‘ کے سوال کے جواب میں کہا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی، بے روز گاری اور عدم مساوات ہے اس کے علاوہ موجودہ نظام مجموعی طور پر ظالمانہ، فرسودہ اور ناکارہ ہے جو کسی بھی دائرے میں عام آدمی کو انصاف فراہم نہیں کرتا، رشوت اور سفارش کے بغیر کسی کا جائز کام بھی نہیں ہوتا، نظام کی اس بربادی اور فرسودہ پن کے باعث لوگوں میں شدید مایوسی، رد عمل، عدم برداشت اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ حکومتی پالیسیاں طبقاتی تقسیم بڑھا رہی ہیں امیر، زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہو رہا ہے پھر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جس تہذیب و ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں نفسانفسی، پیسے کی دوڑ اور مصنوعی اسٹیٹس کی خواہشات جنم لیتی ہیں اور سب سے اہم سبب اس بڑھتی ہوئی معاشرتی عدم برداشت کا یہ ہے کہ ہم اپنے خالق ومالک اور دین سے دور ہو رہے ہیں، عدم برداشت کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایسی پالیسیاں بنائے جن سے طبقاتی نظام اور امیر غریب میں تفاوت ختم ہو اور عام آدمی تحفظ محسوس کرے، اسلامی اصولوں پر مبنی ایسا نظام رائج کیا جائے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں کمی آئے۔ آخری اور اہم ترین بات یہ کہ بحیثیت قوم ہم اپنے رب سے رجوع کریں خالق سے تعلق مضبوط بنا کر عدم برداشت اور بے سکونی کی موجودہ کیفیت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ممتاز کالم نویس، دانشور اور ٹی وی میزبان سجاد میر نے ’’جسارت‘‘ سے گفت گو میں کہا کہ ہمارے معاشرے میں کئی قسم کی گھٹن اور حبس کی کیفیت ہے اور اس حبس کی شدت کا عالم یہ ہے کہ لوگ لو کی دعا مانگنے پر مجبور ہیں اس صورت حال کے نتیجے میں عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے، گھٹن کوئی ایک قسم کی نہیں بلکہ بیسیوں طرح کی گھٹن ہے، معاشرے میں سیاسی، سماجی، جنسی اور معاشرتی حبس کے باعث لوگوں میں عدم برداشت کا رویہ فروغ پا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ معاشرے میں جس خوش حالی کے قوم سے وعدے کیے گئے تھے، اس جانب پیش رفت کی جائے ورنہ محرومیوں سے تنگ لوگ چرچڑے پن کا مظاہرہ کرتے رہیں گے اور عدم برداشت کبھی خود پر غصہ، کبھی دوسروں پر تشدد اور بعض اوقات دہشت گردی و تخریب کاری کی صورت میں نتائج سامنے آتے رہیں گے۔ پاکستان قومی زبان تحریک کے صدر ڈاکٹر شریف نظامی نے معاشرے میں عدم برداشت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ موجودہ دور میں ہر انسان پریشان ہے حتیٰ کہ کروڑ اور ارب پتی لوگ بھی مطمئن نہیں، لوگوں کی ہوس پوری نہیں ہوتی جس کے سبب عدم اطمینان کا رویہ جنم لیتا ہے اور یہی رویہ عدم برداشت میں اضافہ کا بڑا سبب ہے، لوگ اپنی رائے اور موقف کے خلاف بات سننے اور تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور رد عمل میں کچھ نہ کچھ کر گزرتے ہیں اگر ہم انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قناعت اختیار کریں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس پر مطمئن اور خوش رہ سکیں تو باہم خلوص و محبت میں اضافہ ہو گا، دوسروں کی بات سننے اور مناسب جواب دینے کا حوصلہ بڑھے گا۔ لڑائیوں، کشیدگی اور الجھائو میں کمی آئے گی۔