یہودیوں کی جس دوہزار سالہ جدوجہد کی مثالیں دی جاتی ہیں اس کا حاصل وہ خونی ریاست ہے جسے مجرموں کا ٹولہ چلا رہا ہے۔ غزہ کے 18لاکھ، مغربی کنارے کے 27لاکھ وہ فلسطینی جن کی تعداد حقیقت میں زیادہ ہے، اور 12لاکھ سے زائد وہ فلسطینی جو صہیونی ریاست کے شہری ہیں انفرادی اور اجتماعی نسل کشی کے نشانے پر ہیں۔ مائوں کی ہسٹریائی چیخیں، منہدم اور لٹے پٹے گھروں کے سامنے سکتہ زدہ لوگ، منقسم اور دربدر خاندان، من مانے اور ظالمانہ قوانین ارض فلسطین کا وہ منظر نامہ ہے جسے یہودی اقلیت بے خوف ہوکر آئے دن تخلیق کرتی رہتی ہے کیونکہ امریکا اس کا سرپرست ہے۔ کسی بھی امریکی گماشتہ ریاست کے مقابلے میں جسے سب سے زیادہ امریکا کی سول اور ملٹری امداد مل رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حالیہ دورے کے موقع پر اسرائیلی صدر کے طیارے کے کاک پٹ میں جو گفتگو ہوئی ہے جس میں پائلٹ سعودی سرزمین کے اوپر سے گزرنے کو تاریخی لمحہ اور سعودی دارالحکومت ریاض پر اسرائیلی قبضے کی بات کررہا ہے خود اسرائیلی صدر کے دفتر سے جاری کی گئی ہے۔ صہیونی ریاست نے کبھی اپنے عزائم پوشیدہ نہیں رکھے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ہال میں یہ جملہ تحریر ہے ’’اے اسرائیل تیری سرحدیں دریائے نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔
صہیونی ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق، ہمدردی اور رعایت عالم اسلام کے ساتھ وہ غداری ہے جو کسی صورت قابل معافی نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جہاں کبھی برطانیہ اور فرانس کی فرماں روائی تھی اب امریکا کی عملداری ہے۔ عرب ممالک میں اس کے ایجنٹ حکمران ہیں جواب پہلے کی طرح فلسطینی عربوں کے کسی بھی حوالے سے پُر جوش یا غیر پرجوش حامی نہیں ہیں۔ 13اگست 2020 کو متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد بحرین بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بلندترین سطح پر ہیں۔ قطر اور عمان ممکن ہے وہ اگلے ممالک ہوں جو اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ مصر 1979 میں اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے۔ 1994 میں اردن بھی اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ دیرینہ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ جنوبی سوڈان کے تل ابیب سے قریبی تعلقات ہیں۔ بحرین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے قریب قریب ہے۔ افریقی ممالک میں سوڈان سر فہرست ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اب کوئی انہونی اور نئی بات نہیں ہے۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ یہ تعلقات چارپائی کے نیچے ہیں یا چارپائی کے اوپر۔ ان تعلقات کو عرب اور مسلم ممالک کے حکمران اپنی مدت اقتدار کے لیے طاقت تصور کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کا اقتدار خطرے میں پڑسکتا ہے۔
وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں ان میں ترکی کا کردار بہت دلچسپ ہے۔ 1949 میں ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلمان ملک تھا۔ صدر طیب اردوان اسرائیل کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنے کا کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتے لیکن ان کے دور ہی میں یہ تعلقات ہر سطح پر ترقی سے ہمکنار ہے ہیں۔ 2005 میں صدر طیب اردوان نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ 2008 میں اسرائیلی وزیراعظم نے انقرہ کا دورہ کیا۔ 2018 میں غزہ میں فلسطینی مظاہرین کے خلاف پرتشدد اسرائیلی کارروائیوں کے ردعمل میں صدر طیب اردوان نے اسرائیل کو دہشت گرد اور فلسطینی بچوں کا قاتل کہہ کر اپنے سفیر کو تل ابیب سے واپس بلا لیا تھا لیکن حیرت انگیز طور پر دونوں ممالک میں 2019 میں تجارت کا حجم 5ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا تھا۔ اگلے برس 2020ء میں ترکی نے یک طرفہ طور پر منقطع تعلقات بحال کرنے کا اچانک اعلان کردیا۔ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی سیاح ترکی آتے ہیں۔ صدر اردوان نے گزشتہ دنوں کہا تھا ترکی اسرائیلی قدرتی گیس یورپ پہنچا سکتا ہے۔ اسرائیلی صدر حال ہی میں ترکی کا دورہ کرنے والاہے جسے طیب اردوان نے دونوں ممالک کے تعلقات کا ایک نیا باب قراردیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت تل ابیب کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ حالانکہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک کو فلسطین سے غداری کرنے والے اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے کہتے آئے ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو آہستہ آہستہ اسرائیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ انٹر نیشنل میری ٹائم ایکسر سائز (IMX/CE22) کے بینر تلے پاک بحریہ کی اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں اس سمت میں ایک قدم ہے۔ ایک خبر کے مطابق نومبر 2020 میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے تل ابیب کا خفیہ دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے موساد چیف سے ملاقات کی تھی۔ 90اور 2000 کی دہائی میں دونوں ممالک براہ راست سیاسی رابطوں میں رہے کیونکہ اوسلو معاہدے اور فلسطینی اتھارٹی کے قیام کی وجہ سے اسرائیل کے مسلم دشمن امیج میں کمی آئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس معاملے میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی تھی۔ وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے ترکی میں اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں بھی پاکستان اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس تعاون قائم رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا اجمل قادری نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ایک وفد نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی اور وہ بھی اس وفد کا حصہ تھے۔
فلسطین کی اسلامی سرزمین پر قبضے مسجد الاقصیٰ کی حرمت کی پامالی اور پچھلے 70،80 برس سے مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کو سفاکی سے خاک اور خون میں ملادینے والی صہیونی ریاست کے جواب میں یہ عرب اور اسلامی ممالک کا ردعمل ہے۔ وہ اسلامی ممالک جن کے پاس دنیا کے بیش بہا قیمتی وسائل ہیں، صہیونی ریاست کی 1لاکھ 76ہزار دنیا کی محبت میں گرفتار فوج کے مقابلے میں 27لاکھ 87ہزار 500 اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے حضور سرخروئی کی تمنا میں موت کی آرزوکرنے والی بہادر افواج ہیں لیکن ان کے دل اسرائیل، امریکا اور یورپی ممالک کے اتحاد کے خوف میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ یورپی مما لک جو صدیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے ہیں، دہائیوں پر محیط طویل جنگوں کی تاریخ رکھتے ہیں، یہودیوں کے بدترین دشمن رہے ہیں اور آج بھی اندر سے ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں لیکن، 26ممالک کے اتحاد، یورپی یونین کی صورت یکجا ہوئے تو انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ امن اور سلامتی کی نادر مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن جب مسلم ممالک کی یکجائی اور ایک اتحادی ریاست کی بات کی جاتی ہے، اسے مسلمانوں کی عظیم تاریخ اور خلافت سے منسلک کیا جاتا ہے جو کہ اسلام کا جہانبانی کا منفرد طریقہ ہے، تو برطانیہ کے ٹونی بلیئر، امریکا کے صدر بش اور روس کے صدر پیوٹن خوف اور سراسیمگی کا شکار اور اس کے خلاف دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ مغرب سرحدوں کی حدود سے ماورا ہوکر ایک کرنسی، ایک دفاعی حکمت عملی اور تجارتی پالیسیوں کے مزے لوٹ سکتا ہے، تمام ممالک مل کر صہیونی ریاست کے دفاع میں ایک ہوسکتے ہیں لیکن مسلم ممالک کی سرحدوں کو اتنا مقدس بنادیا گیا ہے کہ وہ ان سرحدوں کے پار جاکر صہیونی، عیسائی اور ہندو حملوں اور یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مسلمان بھائی کی فوجی، عسکری اور مالی مدد نہیں کرسکتے ورنہ نجانے کن کن عالمی پابندیوں کی زد میں آجائیں گے، سعودیہ کا تیل اور ملیشیا کا پام آئل نہیں خرید سکتے کیونکہ ان کی خریدو فروخت ڈالروں سے مشروط ہے۔ سرمایہ دارانہ مغربی ورلڈ آڈر کے تحت مسلم حکمران امریکا اور یورپ کی عیسائی اور یہودی ریاستوں کے ساتھ لاکھ دوستانہ ماحول بنانے کی کوشش کرلیں، ان کی برتری کو تسلیم کرلیں، ان سے جنگی، معاشی، سفارتی اور دنیا جہان کے روابط استوار کرلیں، کھیلوں کے مقابلے کرلیں، سفارتی دورے کرلیں، باہمی فوجی مشقیںکرلیں ذلت، رسوائی اور بربادی کے سوا انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ اسلام خود ایک ورلڈ آڈر ہے اس کا مزاج ہی نہیں کسی دوسرے ورلڈ آڈرکے تحت کام کرنے کا۔ وما علینا الا البلاغ