بلوچستان میں بھارت کی دلچسپی کس لیے ؟

692

بھارت کی سرحدیں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے نہیں ملتیں لیکن بھارت وہاں مداخلت کے لیے پاکستان کے مغربی پڑوسیوں کے سرحدی علاقے اور سمندری راستے کو استعمال کرتا ہے۔ بھارت جس طرح کھلم کھلا بلوچستان کے معاملات پر تبصرے کررہا ہے یہ ایک آزاد ملک کے معاملات میں مداخلت ہے۔ پاکستان کی کسی بھی حکومت نے بھارت کو یہ یاد نہیں دلایا کہ اس نے مشرقی پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پار کرکے ایک بین الاقوامی جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ اب بھارت دوسرا جرم کرنے جارہا ہے اس نے بلوچستان کو بھی بنگلا دیش سمجھ لیا ہے اور مسلسل مداخلت کررہا ہے۔ کل بھوشن یادو جسے 3 مارچ 2016 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ خبر پاک بھارت سرحد کے دونوں اطراف میں رہائش پزیر کروڑوں افراد کے درمیان موضوع بحث بن گئی۔ اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈھٹائی دیکھیں کہ اپنی 15 اگست 2016 کی تقریر میں کہتا ہیکہ وہ بلوچستان اور گلگت بلتستان اور پاکستانی کشمیر کے لوگوں کا شکر گزار ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ظلم وستم پر مودی کی تنقید کا خیر مقدم کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں اس پر احتجاج کیا گیا تھا۔ کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد بھارت کی بلوچستان کے بارے میں ڈھٹائی بڑھ گئی اور کل بھوشن کی رہائی کے لیے پاکستان پر دبائو بڑھا دیا اور پاکستان کی عمرانی حکومت بھارت کے دبائو میں آگئی۔ عمران خان کی حکومت نے تو بھارت کے کشمیر کے انضمام پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی نہیں اٹھا سکا جس کی قراردادوں کی بھارت نے صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان کی حکومت کل بھوشن کی گرفتاری کو بھی دنیا کے سامنے بھارت کی مداخلت کے ثبوت کے طور پر نہیں پیش کرسکا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکی اشاروں کے گرد گھومتی رہتی ہے اور امریکا نہیں چاہتا کہ اس کے اسٹرٹیجک پارٹنر کے خلاف پاکستان کچھ کرے اسی لیے سی آئی اے کے سابق ملازم معید یوسف کو پاکستان کی قومی سلامتی کے شعبے پر مسلط کیا گیا ہے، تاکہ پاکستان امریکا اور اس کے اسٹرٹیجک پارٹنر کے مفادات کو زک نہ پہنچے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے ٹھوس ثبوت ہونے کے باوجود اپنا کیس بین الاقوامی سطح پر نہیں لڑ پارہا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بلوچستان میں دہشت گردوں کی اسلحے سے مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بھی اٹھا رہا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالا جاسکے۔ بھارت کے سرکاری نشریاتی ادارے آل انڈیا ریڈیو (اے آئی آر) نے ایک بلوچی ملٹی میڈیا ویب سائٹ اور ایک موبائل ایپ لانچ کررکھی ہے۔ تاکہ بلوچستان میں آگ کو مزید بھڑ کایا جاسکے۔ ماسکو میں مقیم سابق علٰیحدگی پسند بلوچ رہنما جمعہ مری بلوچ کا کہنا ہے کہ بھارت نے بلوچستان کی جدوجہد کو یرغمال بنا لیا ہے۔ انہوں نے ماسکو میں پاکستانی یونٹی ڈے میں شرکت کے دوران روسی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لیے ہر کوئی میری کاوشوں اور جدوجہد سے واقف ہے۔ میرا مقصد حیات بلوچستان کے حقوق کی جنگ رہا۔ جس کے لیے میں نے دنیا بھر میں پاکستان مخالف کانفرنسوں اور سمیناروں میں شرکت بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے علاوہ کسی بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے بلوچستان کے مسئلے کو کوریج نہیں دی جاتی۔ دراصل بھارتی ایجنسیاں ان چینلز کو وہاں موجود اپنے بھارتی ایجنٹ (جو بطور بلوچ جنگجو یا علٰیحدگی پسند کی حیثیت سے سرگرم ہیں) کی کوریج کا معاوضہ دیتی ہیں۔ جب کے ان جنگجوؤں کو بھی بھارتی جاسوس ایجنسیاں پیسے دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کا بھارتی مقصد مقبوضہ کشمیرکی آزادی اور حق خودارادایت کی آواز کو دبانا ہے۔ جمعہ مری نے مزید کہا کہ ’’میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان بھارت کو مقبوضہ کشمیرکی مدد نہ کرنے کا تھوڑا سا اشارہ بھی دے دے تو دوسرے روز سے ہی بھارتی ایجنسیاں بلوچستان سے غائب ہوجائیں یا بلوچوں کو سیوریج کی لائنوں میں ڈال دیں۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ ’’آزاد بلوچستان کا جھنڈا بھی میں نے ہی تیار کیا تھا جس کے بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ میں نے بلوچستان کی آزادی اور حقوق کی خاطر اپنا گھر، خاندان اور پاکستان سب چھوڑ دیا اور جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ جمعہ مری بلوچ بلوچستان کے ایک سخت گیر علٰیحدگی پسند رہنما کے طور پر مشہور رہے ہیں تاہم کچھ عرصے قبل انہوں نے پاکستان مخالف جدوجہد ترک کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
بھارت کی نظریں قیام پاکستان کے وقت ہی سے بلوچستان پر ہیں لیکن امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ نے بھارت کے اس مقصد کو مزید ہوا دے دی ہے۔ نومبر 2020 کی بات ہے جب خطے میں ایک ایسی ڈویلپمنٹ نظروں سے اوجھل رہی جس کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے تھا۔ یہ ڈویلپمنٹ امریکا اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کی صورت میں امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ روز قبل پراسرار طریقے سے ہوئی جس پر دستخط کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مائیک ایسپر اچانک بھارت گئے اور ’’بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع نے دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت امریکا، بھارت کو جیو اسپیشل انٹیلی جنس
یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات فراہم کرے گا۔ اس طرح اِن حساس سیٹلائٹ معلومات کے بعد بھارت کے پاس پاکستان کے تمام حساس مقامات کی معلومات آجائیں گی جس سے ہمارے بیلسٹک میزائل سمیت تمام خفیہ تنصیبات کا پتا چلایا جاسکے گا۔ بھارت کو فراہم کیے گئے امریکی سیٹلائٹ ڈیٹا کی معلومات سے بھارت کو خودکار میزائل اور مسلح ڈرون کو درست مقامات پر نشانہ لگانے میں مدد ملے گی جس کے ذریعے بھارت، پاکستان کی میزائل تنصیبات کو باآسانی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ امریکی انتظامیہ کی اْن کوششوں کا حصہ ہے جس کے ذریعے امریکا اپنے اتحادیوں کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت سے معاہدے کرنا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکا بھارت کو خطے کا چودھری دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگی صورتحال پیدا کی جائے تاکہ چین کو جنگ میں الجھاکر کمزور کیا جاسکے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت اس سے قبل بھی امریکا کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرچکا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاعی اڈوں کو استعمال کرسکیں گے۔ امریکا، بھارت حساس نوعیت کے دفاعی معاہدے پر چین شدید تشویش کا اظہار کررہا ہے مگر اس معاملے پر حکومت پاکستان کی خاموشی معنی خیز ہے اور حکومت نے اس معاہدے پر امریکا سے احتجاج کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ چین کو بھی امریکا بھارت معاہدے پر شدید تحفظات ہیں جو ایسے وقت میں کیا گیا جب چین اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور ہمالیہ کے مقام پر رواں سال جون سے دونوں ممالک کے مابین شدید تنائو کی صورتحال ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے لیے نقصان دہ اور بھارت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
معاہدے کے تحت بھارت کو امریکی فوجی ہارڈویئر، ٹیکنالوجیز اور معلومات کی فراہمی علاقائی استحکام بالخصوص پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا اور نائن الیون کے بعد پاکستان، امریکا کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل قربانیاں دیتا رہا ہے جس میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بھی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوا جس میں پاکستان، طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرکے انہیں مذاکرات کی میز پر لایا۔ امریکا، طالبان معاہدے جس میں پاکستان بھی فریق ہے، کی سیاہی ابھی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ امریکا نے ایک حساس نوعیت کا معاہدہ بھارت سے کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں۔ چین کے مفادات پاکستان میں سی پیک راہداری کے ساتھ ہیں سی پیک کا بڑا حصہ بلوچستان میں ہے اور بھارت کو امریکا کی جانب سے اجازت مل گئی ہے کہ وہ چین کو نقصان پہنچانے کے نام پر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کرے، کیونکہ بھارت اور امریکا میں یہ معاہدہ ہوا ہے کہ بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے اسی پس منظر میں امریکی ذرائع ابلاغ کو اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نظر آنے لگی ہے۔ اور دہشت گردی کے تازہ ترین واقعات میں افغانستان میں امریکی قبضے کے دوران بھارت کی زیر سرپرستی کام کرنے والی تنظیم ٹی ٹی پی بھی شامل ہوگئی ہے اس لیے پاکستانی سپاہیوں کی شہادت میں اضافہ ہوگیا ہے اور اسی ٹی ٹی پی سے عمرانی حکومت مذاکرات کررہی ہے؟ کیا یہ امریکی دبائو کا نتیجہ نہیں ہے؟ یہ امریکی دبائو ہی ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے جواب میں پاکستان نے بھارت کو کرتار پور میں بھارتیوں کے داخلے کا اختیار دے دیا ہے، افغانستان میں تجارت کے لیے واہگہ باڈر کا راستہ دے دیا ہے۔ جس ملک نے پاکستان کی شہ رگ کو پکڑ رکھا ہے اور پاکستان کی سرزمین میں آگ لگا رکھی ہے اس کے آگے عمرانی حکومت بچھی جارہی ہے۔ اس کی بھارت کی پاکستان دشمنی پر کوئی توجہ نہیں ہے کیونکہ عمرانی حکومت کی ساری توجہ اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام کے نت نئے طریقوں کی ایجاد میں رہی۔ جبکہ پاکستان کے دشمنوں سے ہاتھ ملانے کی کوشش جاری رہی اور پاکستان کے دوستوں کے ساتھ جو کچھ عمرانی حکومت نے کیا اس کے نتیجے میں چین نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی تک اپنا ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ عمرانی حکومت کے دور میں دہشت گردی کے اتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں کہ چین نے سی پیک کا کام لپیٹ دیا۔ بلوچستان میں آگ بھڑک اٹھی ہے لیکن وزیر داخلہ شیخ رشید احمدکی ساری توجہ سیاسی مخالفین پر ہے۔