پاکستانی سیاست بھی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی رہتی ہے کہاں یہ حال تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں ٹھنی ہوئی تھی۔ مریم نواز اور بلاول زرداری ایک دوسرے پر تبرا بھیج رہے تھے۔ شہباز شریف اگرچہ دھیمے مزاج کے آدمی ہیں لیکن آصف زرداری کے بارے میں ان کی رائے بھی اچھی نہ تھی بلکہ ایک زمانے میں تو انہوں نے اپنے مزاج کے برعکس زرداری کے خلاف اعلان جنگ کررکھا تھا اور وہ ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا مال نکالنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے لیکن پھر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور عمران خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے خلاف تلوار سونت لی اور شور مچا دیا کہ یہ دونوں جماعتیں اور ان کے لیڈر ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ یہ سب چور، ڈاکو، لٹیرے اور کرپٹ ہیں، وہ ان میں سے کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے۔ چناں چہ ان دونوں جماعتوں نے اپنی دشمنیاں بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف محاذ قائم کرلیا۔ پی ڈی ایم کے نام سے عمران حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا گیا۔ لیکن یہ اتحاد بھی دلوں کی دوریاں ختم نہ کرسکا۔ پی ڈی ایم کا سربراہ اجلاس ہمیشہ عدم اتفاق پر ختم ہوتا رہا۔ آخر پیپلزپارٹی نے اس نمائشی اتحاد سے علاحدگی اختیار کرلی اور تحریک انصاف کے بعد اپنی باری کو یقینی بنانے کے لیے مقتدرہ سے بھی راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کی، لیکن کہا جاتا ہے کہ اسے کوئی پزیرائی نہیں ملی۔ دوسری طرف شہباز شریف نے جب دیکھا کہ عمران حکومت کا مقابلہ تنہا (ن) لیگ کے بس کی بات نہیں تو انہوں نے پھر پیپلز پارٹی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا۔ زرداری عملیت پسند سیاستدان ہیں وہ مفروضوں پر یقین نہیں رکھتے۔ چناں چہ انہوں نے کسی پس و پیش کے بغیر شہباز شریف کی دعوت قبول کرلی اور اپنے صاحبزادے بلاول کے ہمراہ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے صدر کے مکان پر جا پہنچے جہاں (ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی ان کے استقبال کو موجود تھے۔ شاعر نے کہا تھا
آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
شہباز زرداری ملاقات ایک اہم سیاسی خبر تھی جس پر ٹی وی چینلوں نے ٹاک شوز کی بھرمار کردی اور تجزیہ کار اس پر قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہے لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ملاقاتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ دونوں جماعتیں عملاً ایک دوسرے کی سیاسی حریف ہیں اور اقتدار پر قبضے کے لیے ایک دوسرے کو پچھاڑنے پر یقین رکھتی ہیں۔ بے شک ان کا دشمن مشترک ہے اور وہ اس سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ خود بھی تو ایک دوسرے کی دشمن ہیں اور ماضی میں اس دشمنی کا کھلم کھلا اظہار کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف کرپشن، منی لانڈرنگ اور لوٹ مار کے جو مقدمات قائم کیے تھے اب وہی مقدمات عمران خان حکومت ان کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ میاں نواز شریف اقتدار سے نکالے جانے کے بعد لندن میں بیٹھے حکومت کے خلاف ڈوری ہلا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اشارے ہی پر شہباز شریف نے زرداری سے ملاقات کی ہے اور عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اتفاق کیا ہے، جب کہ اس سے پہلے میاں صاحب اس تحریک کے حق میں نہیں تھے اور وہ اسے وقت کا زیاں سمجھتے تھے، حالاں کہ زرداری ابتدا ہی سے تحریک عدم اعتماد کے حامی تھے اور انہوں نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کی ذمے داری بھی قبول کی تھی۔ اِس وقت جب کہ حکومت کی مدت صرف ڈیڑھ سال رہ گئی اور عام انتخابات سر پہ کھڑے ہیں۔ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اب تو سیاسی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے اور بلدیاتی انتخابات میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانی چاہیے جو عدالتی فیصلے کے سبب اِن دنوں پراسیس میں ہیں۔
شاید شیخ رشید نے درست کہا ہے کہ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک نالائق اپوزیشن سے واسطہ پڑا ہے، وہ حکومت کے خلاف کوئی بھی تحریک وقت پر نہیں چلا سکی، جب اسے قومی اسمبلی میں عدم اتحاد کی تحریک لانی چاہیے تھی وہ احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں اُلجھی رہی۔ اب تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ بلند ہوا ہے تو حالات کار بلا کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ لانگ مارچ کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی الگ ڈفلی بجانا چاہتی ہے اور پی ڈی ایم نے اپنا الگ ڈھول بجانے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول کی خواہش ہے کہ ڈفلی اور ڈھول مل کر اسلام آباد پر حملہ آور ہوں تا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے اور دونوں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کرسکیں۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمن مشکل میں ہیں وہ نجانے کب سے لانگ مارچ کی تیاری میں مصروف ہیں اور بقول حافظ حسین احمد اس کے لیے ایڈوانس بھی لیے بیٹھے ہیں لیکن بلاول نے الگ سے لانگ مارچ کا اعلان کرکے سارا کھیل بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔
بہرکیف آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
اب دیکھیے کیا ہوتا ہے۔