پہلی عالمی جنگ بوسنیا کے دارالحکومت سرائیوو کے سِرے پر واقع پُل پر سے گزرنے کے دوران آسٹریا کے ولی عہد کے قتل سے ہوئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ پولینڈ پر جرمنی کی لشکر کشی سے شروع ہوئی تھی۔ پہلی عالمی جنگ بہت معمولی واقعے سے شروع ہوئی تھی۔ اب یوکرین کا بحران گل کھلانے کی تیاری کر رہا ہے۔ لوگ اس طرف زیادہ متوجہ نہیں۔ تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا روس اور یوکرین کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی تیسری عالمی جنگ کا سبب بنے گی۔ امریکا نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر حال میں یوکرین کے ساتھ ہے۔ کئی ممالک یہ کشیدگی ختم کرانے کے لیے خاصے متحرک ہیں۔
کم و بیش ایک عشرے سے مختلف واقعات نے انتہائی نوعیت کی کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان بالا دستی کی جنگ چل رہی ہے۔ امریکا سپر پاور ہے اور اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چین سپر پاور بننے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ تائیوان کے معاملے پر چین اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ بھی جاری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد ِ صدارت میں اِس جنگ نے زور پکڑ لیا تھا۔ سیاست میں رَسّا کشی برقرار رہتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ تشویش اس وقت شروع ہوتی ہے جب کشیدگی انتہائی شکل اختیار کرتی ہے اور سرد جنگ کے گرم جنگ میں تبدیل ہونے کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اس اعتبار سے تشویش ناک ہے کہ یوکرین کی مدد کرنے کے لیے ایسے کئی ممالک سامنے آئے ہیں جو معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (ناٹو) کے رکن ہیں۔ امریکا سب کو ساتھ لے کر روس پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس مرحلے پر یہ حقیقت نظر انداز کردی گئی ہے کہ یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ یوکرین پر حملے سے روکنے کے لیے مغرب کی متعدد بڑی قوتیں مل کر روس پر حملہ کردیں؟ ایسا کوئی بھی قدم انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
اگر یوکرین کی حمایت میں چند بڑے ممالک سامنے آئیں گے تو کیا روس اکیلا رہ جائے گا؟ ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ روس کو دبانے کا مطلب ہے چین پر بھی دباؤ ڈالنا۔ یوکرین کا بحران ختم کرنے کے لیے روس کے خلاف کی جانے والی کسی بھی کارروائی کے توڑ کے لیے چین کو بھی میدان میں آنا پڑے گا۔ چین ایسی کسی بھی صورتِ حال کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم نہ کرے یا نہ کرے، چین اور روس کے مفادات میں یکسانیت ہی نہیں ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کے لیے یوکرین کی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر روس کو گھیرنا ممکن نہ ہوگا۔ وسط ِ ایشیا کی ریاستیں بھی اس معاملے سے الگ نہیں رہ سکتیں۔ چین اور اُس کے ہم خیال غیر علاقائی ممالک اگر مل کر سامنے آئے تو تاجکستان، ترکمانستان، آذر بائیجان، کرغیزستان اور ازبکستان کے لیے الگ تھلگ رہنا ممکن نہ رہے گا۔
امریکا اور یورپ نے یوکرین کے بحران کو اپنے کے لیے حقیقی ٹیسٹ کیس کے طور پر دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ بات ایسی الجھی ہوئی نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ امریکا اور یورپ دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد سے اب تک صرف کمزور ممالک کو دباتے، دبوچتے آئے ہیں۔ امریکا نے جنوبی امریکا کے متعدد ممالک میں انتہائی درجے کی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ خطے کا کوئی بھی ملک اتنا نہ پنپ سکے کہ اُسے منہ دینے کے قابل ہو جائے۔ کیوبا کے علاوہ ہیٹی، کولمبیا، نکارا گوا اور پاناما کے لیے بھی مشکل حالات پیدا کرنے میں امریکا نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ سفارتی معاملات میں بھی اِن کمزور ممالک کے لیے الجھنیں پیدا کی جاتی رہی ہیں۔
مشرقِ وسطٰی میں امریکا اور یورپ نے مل کر خرابیاں پیدا کی ہیں۔ مسلم دنیا کو تباہی اور بربادی سے دوچار رکھنے کی پالیسی پر کئی عشروں سے عمل جاری ہے۔ اسرائیل کو مسلم دنیا کے سینے میں کِلّے کی طرح گاڑ دیا گیا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے نہیں دیا جارہا۔ پوری کوشش ہے کہ یہ تنازع برقرار رہے اور خطے کے حالات دگرگوں رہیں۔ عراق، لیبیا، شام اور یمن کا جو حشر ہوچکا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ان چاروں ممالک کو اس قابل نہیں چھوڑا گیا کہ اب ایک مدت تک اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔ علاوہ ازیں افغانستان کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ امریکا کی قیادت میں مغربی عسکری اتحاد نے انتہائی بے شرمی سے ایک چھوٹے سے، کمزور تر اور عشروں کی خانہ جنگی کے نتائج بھگتنے والے ملک کو سبق سکھانے کے نام پر شرم ناک اقدامات کیے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ چین اور روس جیسے مضبوط ممالک کا سامنا کیا جائے۔
قدرت کا اپنا نظام ہے جس کے تحت وہ پورے توازن اور عدل کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اب امریکا اور یورپ کو ثابت کرنا ہے اُن میں واقعی طاقت پائی جاتی ہے۔ کمزور ممالک اور خطوں کو تو بہت سبق سکھایا گیا۔ اب چین اور روس کو سبق سکھانے کی باری ہے۔ چین بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ کسی حقیقی تصادم تک نوبت پہنچنے کی صورت میں وہ کہاں تک ڈٹا اور ٹِکا ہوا رہ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روس بھی دنیا کو یقینی دلانا چاہتا ہے کہ اُس میں اِتنا دم خم ہے کہ ایک بار پھر اپنی علاقائی اور عالمی حیثیت منوانے کے لیے بھرپور کوشش کر گزرے۔
یوکرین کا بحران تجزیہ کاروں اور مبصرین کے لیے خاصا دلچسپ ہے کیونکہ اس ایک بحران کی صورت میں وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ امریکا اور یورپ میں اب کتنا دم خم ہے اور روس سمیت ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر چین کب تک عالمی امور پر اپنی بالا دستی ممکن بنا پائے گا۔ معاملہ روس کے لیے بھی بہت حد تک انا کا ہے۔ وہ اب اس کھیل کو ادھورا چھوڑنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لازم ہوچکا ہے کہ وہ اپنا کردار کھل کر ادا کرے، دنیا کو بتائے کہ وہ کمزور نہیں اور کسی نوع کے بین الاقوامی یا عالمی دباؤ کا سامنا کرسکتا ہے۔
مغربی دنیا اپنی بالا دستی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ کر رہی ہے وہ ہر اعتبار سے ایسا نہیں کہ اس کا ساتھ دیا جائے۔ کمزور ممالک کو مزید دبوچ کر مغربی دنیا اب بھی اپنے الو سیدھے کرنے میں مصروف ہے۔ ایسے میں روس پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف اُسے اپنی ساکھ بحال کرنی ہے اور دوسری طرف جنوبی ایشیا کو بھی یہ پیغام دینا ہے کہ اگر کوئی مشکل گھڑی آجائے تو وہ اپنے بیک یارڈ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وسطِ ایشیا کی ریاستوں کا اعتماد حاصل کرنے میں بھرپور کامیابی روس کو جنوبی ایشیا کے گرم پانیوں تک موثر اور بہتر رسائی یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
(بہ شکریہ روزنامہ ’’نو بھارت‘‘ (اندور) 2 فروری 2022)