کویتی ٹینس اسٹار، صہیونی کاک پٹ اور مسلم حکمران

406

دوسرا حصہ

برطانیہ پہلی بڑی طاقت تھی جس نے فلسطین پر یہودی دعوے کی سرکاری طور پر تائید کی اور اس پر عمل درآمد کروایا۔ یوں شیکسپیئرکا انگلستان آخر کار یہودی تاجر کا مداح ہوگیا۔ سرمایہ دار عیسائیت نے یہودیت کو سرمایہ داریت کی نظرسے دیکھا اور دونوں بھائی بن کر ایک دوسرے کا خیر مقدم کرنے لگے۔ تھیوڈور ہرزل کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا تھا کہ فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے لیے ایک بڑی طاقت کی ضرورت ہوگی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی برطانوی حکمرانوں نے صہیونیت کو گلے لگانے کی شروعات کردی تھیںاور وہ صہیونی ریاست کے مقصد کے لیے کردارادا کرنے پرراضی ہوگئے تھے۔ برطانیہ کا خیال تھا کہ ممکن ہے یہ اقدام اتحادیوں کی جنگی کوششوں میں معاون ثابت ہو اور جنگ کے خاتمے پر فلسطین سلطنت برطانیہ کی عملداری میں ہو۔ ڈیوڈ لائیڈ، جارج ونسٹن چرچل اور آرتھر بالفور جو بیسویں صدی کے شروع میں برطانوی سامراج کے مقتدر سیاست دان تھے انہوں نے صہیونیت قبول کرنے کا اعلان کردیا حالانکہ وہ یہودیوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ برطانوی سفارت کار سائیکس یہودیوں کا ہمدرد بن گیا اور اس نے سائیکس پیکو معاہدے کے ذریعے فرانس کو بھی اس عمل میں شامل کرلیا۔ یوں سامراجی برطانوی جنگی کابینہ صہیونیوں کی ہم نوا بن کر اعلان بالفور کا مشہور اعلان کرنے پر تیار ہوگئی۔ بالآخر آرتھر بالفور نے یہ اعلان کرکے یہودی قوم کو فلسطین میں صہیونی ریاست کی ضمانت مہیا کردی۔
سائیکس پیکو معاہدے میں فلسطین کا ایک بڑا حصہ فرانس کو دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ خلافت عثمانیہ کے زوال نے عیسائی اور یہودی بھیڑیوں کے دانت تیز کردیے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ سائیکس پیکو معاہدے کی خلاف ورزی تھا لیکن باور کرایا جارہا تھا کہ ’’سمندری سلطنت کی حیثیت سے برطانوی سلطنت کا پورا مستقبل فلسطین کے بفرریاست بن جانے پر منحصر ہے جہاں ایک کٹر محب وطن (یہودی) قوم آباد ہو‘‘۔ ایک یہودی فلسطین جس کا محافظ برطانیہ ہو نہر سوئز کے حوالے سے برطانوی حکومت کی اولین ترجیح بن گیا۔ برطانوی وزیراعظم لائیڈ جارج یہودی نسل، قوم یہود اور صہیونیوں کا حوالہ ایک ہی سانس میں اس طرح دیتے تھے جیسے یہ بہت معتبر حوالے ہوں۔
مسلم اسپین میں یہ مسلمانوں کی عطا کردہ سہولتیں اور مراعات تھیں جن کے ذریعے یہودیوں نے اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا تھا۔ پندہویں صدی آتے آتے جب اسپین میں مسلمانوں کا زوال اپنی آخری حدوں تک جا پہنچا اس وقت تک یہودی مغرب اور عیسائی دنیا سے اپنے روابط پختہ کرچکے تھے۔ اگرچہ مغرب کے حکمرانوں سے وہ قریب تھے لیکن عیسائی عوام اور کلیسا ان کے دشمن تھے۔ اس موقع پر ان کے اندر کا عبداللہ بن سبا ایک مرتبہ پھر بیدار ہوا اور انہوں نے عیسائیوں اور کلیسا کے درمیان نفرت کے بیج بونا شروع کردیے۔ انہوں نے عیسائیوں کو دو فرقوں کیتھولکس اور پروٹسٹنٹس میں تقسیم کردیا۔ اس سے پہلے عیسائی ایک پوپ کو مانتے تھے۔ یہودیوں نے پوپ کے خلاف بغاوت کروائی۔ اس بغاوت کا ظہور سب سے پہلے برطانیہ میں ہوا۔ سب سے پہلا پروٹسٹنٹ ملک بھی برطانیہ تھا۔ یوں ایک ایسی قوم جو سیدنا عیسی ؑ کو خدا کا بیٹا مانتی ہے یعنی عیسائی اور دوسری قوم (یہود) جو انہیں نعوذ باللہ حرام زادہ، واجب القتل، کافر اور مرتد قرار دیتی ہے ایک ہوگئیں۔
1920میں چرچل نے وزیر نو آبادیات کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے لکھا تھا ’’اگر ایسا ہوجائے کہ ہماری اپنی زندگی میں دریائے اردن کے کناروں پر شاہ برطانیہ کی سرپرستی میں ایک یہودی ریاست تخلیق ہوسکے۔۔۔ تو یہ تاریخ عالم کا ایک ایسا واقعہ ہوگا جو ہر نقطہ نظر سے معتبر ہوگا اور برطانوی سلطنت کے مفادات کے ساتھ خاص کرہم آہنگ ہوگا‘‘۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود تھا کہ چرچل یہودیوں سے نفرت کرتا تھا، سائیکس ان سے کراہت کرتا تھا لیکن یہ تمام رہنما فلسطین میں یہودیوں کی ’’ایک پارسا اور بھلی مانس زرعی آبادی کو ایک انوکھی اخلاقی اور روحانی کیفیت کے ساتھ‘‘ عرب دنیا میں برطانیہ کی جنگی موجودگی کو مضبوط کرنے کے لیے لازم سمجھتے تھے۔ یہودیوں نے بڑی چالاکی اور چابکدستی کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کو اتحادیوں کی ضرورت اور یہودیوں کی بین الاقوامی طاقت کے جبری دبائو کو مغربی دنیا کی مصلحت بنادیا تھا۔
برطانوی اشرافیہ نے یہودیوں کو تو قبول کرلیا تھا لیکن عربوں سے ان کی نفرت ایک نہ ختم ہونے والی حقیقت تھی۔ چرچل جس میں پیش پیش تھا۔ ایک اور بہت مشہور نام فیلڈ مارشل منٹگمری کا ہے۔ 1938ء میں برطانیہ کے خلاف عرب بغاوت کو کچلنے کے موقع پر اس نے اپنے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا ’’انہیں جان سے ماردو‘‘ کیونکہ اس کے الفاظ میں وہ پیشہ ور رہزنوں کے جتھے تھے۔ اس نے حکم جاری کررکھا تھا کہ اگر کوئی عرب مشہور فلسطینی اسکارف ’’کفیہ‘‘ پہنے پکڑا جائے جو عرب مزاحمت کی علامت ہے تو اسے پنجرے میں بند اور پابہ زنجیر کردیا جائے۔ ایک سینئر برطانوی فوجی افسر ’’اورڈی ونگیٹ‘‘ نے ایک نجی فوج تیار کررکھی تھی جو بیش تر یہودیوں پر مشتمل تھی۔ یہ فوج رات کی تاریکی میں عرب ’’دہشت گردوں‘‘ کا تعاقب کرتی تھی۔ ان فوجی دستوں سے ہو لناک واقعات منسوب ہیں جو مغربی کنارے اور غزہ میں اسرائیلی فوج کی موجودہ چیرہ دستیوں سے مماثل ہیں۔ اسرائیلی فوج اور وزارت دفاع ونگیٹ کو ایک قابل تقلید مثال سمجھتی ہیں۔ اس کے دستے عرب دیہاتوں میں اچانک بے مقصد قتل وغارت شروع کردیتے۔ دیہاتوں میں جعلی مقدمے اور عدالتیں قائم کرکے پھانسیاں دی جاتیں۔ ونگیٹ اشتعال انگیزی اور ظلم کی مجنونانہ اسکیموں کا شوقین تھا۔ وہ اپنے یہودی سپاہیوں کو عرب لباس پہناکر حیفا کی عرب مارکیٹوں میں جاکر اندھادھند گولیاں برسانے کا حکم جاری کردیتا۔ مستقبل کی صہیونی ریاست کی فوجوں کے لیے عربوں کو کچلنے کے لیے برطانوی اقدامات اور منصوبے ایک مثال تھے۔ موقع ملنے پر یہودیوں نے مسلمانوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ انسانیت چیخ اٹھی۔ آرنلڈ ٹائن بی اپنی کتابA Study of History میں یہودیوں کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’یہودیوں کے مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے یہودیوں پر کیے تھے‘‘۔ دیر یاسین میں 9اپریل 1948کے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے ٹائن بی کہتا ہے ’’عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس سڑکوں پر نکالا گیا۔ دیگر علاقوں میں یہودی موٹر گاڑیوں پر لائوڈ اسپیکر لگاکر یہ اعلان کرتے پھرے کہ ہم نے دیر یاسین میں یہ کیا اور وہ کیا۔ اگر تم چاہتے ہوکہ تمہارے ساتھ بھی یہ سب کچھ نہ کیا جائے تو ان علاقوںسے نکل جائو‘‘۔
1956ء میں اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے کہا تھا ’’میں نے اس خطے میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو جو فلسطینی ہو جلاکر راکھ کردینے کا عہد کیا ہے۔ یہ بچے اور عورتیں ہمارے لیے زیادہ خطرہ ہیں کیونکہ ان کے باقی رہنے کا مطلب ہے کہ ہم آئندہ فلسطینی نسلوں کا تسلسل جاری رہنے دیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے فوجیوں کو فلسطینی خواتین کی عزت لوٹنے پر ابھاروں کیونکہ وہ سب اسرائیل کے غلام ہیں۔ وہ ہم پر اپنی رائے اور ارادہ مسلط نہیں کرسکتے۔ حکم جاری کرنے کا حق صرف ہمیں ہے باقی سب کو ہماری اطاعت کرنی ہے‘‘۔
اسرائیل کے عرب آبادیوں پر وہ مظالم کہ دنیا چیخ اٹھتی ہے اب معمول ہیں۔ مسلم حکمران اب اسرائیلی مظالم کا حصہ ہیں لیکن امت مسلمہ ان مظالم کو فراموش کرنے پرتیار نہیں۔ مسلمانوں کو جس طرح مسمار کیا جارہا ہے، خاک وخون میں ملایا جارہا ہے، تباہ وبرباد کیا جارہا ہے امت کا اجتماعی ضمیر اسے ایک لمحے کے لیے بھی فراموش کرنے پر تیار نہیں۔ 13سالہ کویتی ٹینس اسٹار محمد العوضی اسی ضمیر کی آواز اور استعارہ ہے۔
(جاری ہے)