گزشتہ دنوں اخبار میں ایک ریڑھی سے پھلوں کی چوری کی ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی۔ ہوا یوں کہ ریڑھی کا مالک کچھ دیر کے لیے ریڑھی سے غیر حاضر ہوا تو اس کی غیر موجودی میں ایک مفلوک الحال شخص چند کیلے اور کچھ سیب اٹھا کر بھاگنے کو تھا کہ ریڑھی کے مالک نے اسے اچانک آ لیا۔ وہ چور کو سیدھا تھانے لے گیا۔
اخبار میں سائیکل چوری کی ایک خبر شائع ہوئی۔ خبر کے مطابق چور اپنے محلے کے ایک گھر کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہاں پہ کھڑی سائیکل لے اڑا۔ راستے میں سائیکل کی چین اتر گئی۔ گھبراہٹ میں وہ سائیکل کی چین تو نہ چڑھا سکا، مگر پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ سنا ہے کہ اب پھلوں کی چوری کا مقدمہ عدالت میں ہے اور فیصلے کا انتظار ہے۔ مگر یہاں تو لاکھوں کی تعداد میں مقدمات اپنے فیصلوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ فی الوقت میں کسی اور مقدمے کی بات نہیں کرتا، میں بات کرتا ہوں اس ملک کی دولت اندھا دھند لوٹنے والوں کی۔ محترمہ فہمیدہ مرزا کے نام سے کون واقف نہیں۔ یہ مارچ 2008 سے جون 2013 تک پیپلز پارٹی کے دورِحکومت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پہ براجمان رہیں۔ اور حالیہ دنوں میں بھی رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے وفاقی وزیر کے منصب پہ فائز ہیں۔ لیکن حال یہ ہے کہ اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بینکوں سے لیے ہوئے اسی کروڑ کے قرضے معاف کرائے بیٹھی ہیں۔ مگر اس ملک میں کس کی ہمت ہے کہ ان سے کچھ باز پرس کرے۔ بیورو کریسی کے کھلائے ہوئے گلوں کی بات کی جائے تو شوکت عزیز کا ذکر کیے بغیر بات مکمل نہیں ہو پاتی۔ دھیمے لہجے اور خوش گفتار ہونے کی بناء پر بابوں کے لائے ہوئے شوکت عزیز نے میڈیا پر اپنے بے ضرر ہونے کا تاثر برقرار رکھا۔ پھر ہمیشہ خود کو بلیم گیم سے دور رکھا۔ اپوزیشن کو کبھی بھی اپنی سیاسی نشانے پہ نہ رکھا۔ خوش لباس شوکت عزیز کا تعلق کراچی کے ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ اس وقت وہ دو ارب چودہ کروڑ ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ کیا کوئی بتائے گا کہ ایک متوسط پاکستانی گھرانے کا فرد اپنی زندگی میں اتنا پیسہ کیسے کما سکتا ہے؟ اپنے بارے میں اعلیٰ کردار شخصیت کا تاثر دینے والے شوکت کو وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈھائی سو کے قریب تحفے ملے۔ لیکن ان میں سے ایک بھی توشہ خانے میں جمع نہیں کرایا۔ یہ سب تحائف اب ان کی مختلف ملکوں کی رہائش گاہوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور اب غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف کی بات چل نکلی ہے تو وزیرِ اعظم عمران خان، جن کی ان کے چاہنے والے ایک صفت گنوائے بناء نہیں رہ سکتے۔ وہ یہ کہ عمران خان ایمان دار انسان ہیں۔ مگر اور کچھ نہیں تو غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف ڈنکے کی چوٹ پر اپنے ذاتی استعمال میں لائے ہوئے ہیں۔ بہر حال ان تحائف کا ذکر تو یہاں محض اونٹ کے منہ میں زیرہ والی بات ہے۔ تاہم یہ بتانا مقصود ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے شوکت عزیز جیسے لوگوں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا۔ چنانچہ وہ اس قسم کی اوچھی کرپشن میں بھی لتھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے وقت کے سربراہ جنرل مشرف تو ایک فوجی ذہن رہنے والے شخص تھے۔ بے دریغ دولت کمانے کے طریقے انہیں شوکت عزیز جیسے شاطر لوگوں نے سمجھائے۔ یہ شوکت عزیز ہی کا جنرل مشرف کو مشورہ تھا کہ حکومت منافع میں چلنے والے بینکوں کو فروخت کرکے دولت کمائے۔ جنرل مشرف کی سمجھ میں بات آگئی اور شوکت عزیز کا لقمہ ٔ تر بنا حبیب بینک۔ اس وقت حبیب بینک کی جمع شدہ رقم اور اثاثوں کی ملکیت 94 ارب روپے تھی۔ لیکن اسے ان صاحب نے 24 ارب میں فروخت کردیا۔ مشہور خریدار نے پہلی قسط چھے ارب ادا کرکے بینک کا کاروبار سنبھال لیا۔ اس کے بعد بینک کا پہلے سال کا منافع 24 ارب روپے آیا جس میں سے اٹھارہ ارب روپے کی باقی رقم ادا کرکے بینک کی مکمل ملکیت حاصل کرلی۔ اس سلسلے میں میڈیا اگر کوئی سوال اٹھاتا تو یا تو اسے ڈرا دھمکا کر خاموش کرادیا جاتا، یا پھر اعدادو شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جاتا۔ شوکت عزیز جس وقت وہ وزیراعظم بنے اس وقت تک ان کا پاکستانی شناختی کارڈ نہ بنا تھا۔ یہ بعد میں بنا۔
یاد رہے کہ بینک کا ہیڈ کوارٹر جو حبیب بینک پلازہ کے نام سے جانا جاتا ہے، صرف اس کی مالیت اس وقت بائیس ارب روپے تھی۔ حبیب بینک کے بعد شوکت عزیز کی نظریں پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری پر ٹھیر گئیں۔ اسٹیل مل جتنے رقبہ زمین پر واقع ہے، صرف اس کی قیمت اُس وقت چالیس بلین روپے تھی۔ جبکہ موصوف پوری مل کو 21 بلین روپے کے عوض بیچنے پر تیار تھے۔ وہ تو اگر عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس نہ لیا ہوتا تو آپ یہ کارنامہ بھی سرانجام دے چکے ہوتے۔ 2008ء میں مشرف حکومت کی معزولی کے بعد شوکت عزیز ملک سے یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پھر سابق وزیر اعظم نے کبھی مڑ کر دیکھنے کی تکلیف تک نہ گوارا کی۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان دنوں شوکت عزیز لندن میں ایک بھارتی بزنس مین لکشمی متل کے ایڈوائزر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ امریکا سے درآمد شدہ وزیر اعظم کے بعد ایک نام پیپلز پارٹی کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا آتا ہے۔ ان کے خاوند فیروز گلزار کے ذمے بینکوں کے 56 ملین روپے جو بطور قرضہ واجب الادا تھے۔ موصوفہ نے اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ قرضے معاف کرائے۔ یہی نہیں، ان کے والد کے ذمے بھی جو بینک کے قرضے واجب الادا تھے، معاف کرائے۔ چلیے چھوڑیے، کالم کی طوالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئیے انتظار کرتے ہیں کہ عدالتِ عالیہ پھلوں کی چوری کے ملزم کو کیا سزا سناتی ہے۔