خواتیمِ بقرہ (آخری حصہ)

420

سیدنا ابوعبیدہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ کے وصالِ مبارک کے بعد سیدنا ابوبکر کھڑے ہوئے اور کہا: (ہجرت کے) پہلے سال رسول اللہؐ میری جگہ کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا: اللہ سے عافیت کا سوال کرو، کیونکہ کسی بندے کو اللہ کی طرف سے عافیت سے بہتر کوئی نعمت عطا نہیں کی گئی اور سچائی اور نیکی کو لازم پکڑو، کیونکہ یہ دونوں جنت میں لے جانے کا سبب ہیں اور جھوٹ اور نافرمانی سے بچ کر رہو، کیونکہ یہ دونوں چیزیں جہنم میں لے جانے کا سبب بنتی ہیں، (مسند احمد)‘‘۔
پچھلی امتوں پر آزمائشوں کا ذکر قرآنِ کریم میں ایک سے زائد مقامات پر بیان ہوا ہے، غزوۂ احزاب کے موقع پر جب پورے عالَمِ عرب کے قبائل مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کے لیے اُمڈ آئے تھے اور نہایت مشکل وقت تھا، مدینۂ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودی گئی تھی اور رسول اللہؐ نے بذاتِ خود اس میں حصہ لیا تھا، اُن حالات کی سنگینی کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر کفار کے لشکر حملہ آور ہوئے تو ہم نے ان پر ایک آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے، جب کفار تمہارے اوپر سے اور تمہارے نیچے سے تم پر حملہ آور ہوئے، جب تمہاری آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے اور تم اللہ (کی نصرت کے) بارے میںطرح طرح کے گمان کرنے لگے تھے، اس موقع پر مومنوں کی آزمائش کی گئی تھی اور ان کو شدت سے جھنجھوڑ دیا گیا تھا اور اس وقت منافق اور جن لوگوں کے دلوں میں (شک کی) بیماری تھی، یہ کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو بھی وعدہ کیا، وہ محض فریب تھا، (الاحزاب: 9-12)‘‘، ’’کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجائو گے حالانکہ ابھی تک تم پر ایسی آزمائشیں نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھیں، ان پر آفتیں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ (اس قدر) جھنجھوڑ دیے گئے کہ (اس وقت کے) رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکاراٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی، سنو! بے شک اللہ کی مدد عنقریب آئے گی، (البقرہ: 214)‘‘۔
پس لازم ہے کہ مسلمانوں پر جب مشکل وقت آئے تو وہ تمام تر دستیاب ظاہری اسباب اختیار کرنے کے باوجود فیصلہ کن کامیابی کے لیے اپنی قوتِ بازو اور اسبابِ ظاہری پر بھروسا نہ کریں، بلکہ اللہ کی نصرت، تائید غیبی اور اسبابِ غیب پر توکل کریں، کیونکہ جب اس کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے تو اسباب مؤثر ہوجاتے ہیں، حوصلے بلند ہوجاتے ہیں، دشمنوں کی ہمت پست ہوجاتی ہے، حالات موافقت میں بدل جاتے ہیں، احادیث مبارکہ میں ہے:
’’سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں: میں بدر کے دن نبیؐ کے سامنے اپنی کمان میں تیر رکھتا اور یہ دعا پڑھ کر تیر چلاتا: اے اللہ! ان کے قدموں لڑکھڑا دے، ان کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردے، ان کو انجامِ بد سے دوچار فرمادے، تو نبیؐ فرماتے: اے اللہ! سعد کی دعا قبول فرما، (المعجم الکبیر للطبرانی)‘‘، ’’عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں: سیدنا عمرؓ رکوع کے بعد یہ دعا کرتے: اے اللہ! ہماری، سارے مومنین، مومنات، مسلمین اور مسلمات کی مغفرت فرما، ان کے دلوں کو جوڑ دے، ان کے درمیان اصلاح فرما، اپنے اور اُن کے دشمنوں کے خلاف نصرت عطا فرما، اے اللہ! کفار اور اُن اہلِ کتاب پر لعنت فرما جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، تیرے محبوب بندوں سے لڑتے ہیں، اے اللہ! ان کے درمیان اختلاف پیدا فرما، ان کے قدموں کو ڈگمگادے اور ان پر وہ عذاب نازل فرما جو مجرموں سے ٹلتا نہیں ہے، پھر بسم اللہ پڑھ کر قنوت کی معروف دعا پڑھتے، (السنن الکبریٰ للبیہقی)‘‘۔