کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) ہمارے ملک میں سیاست بکتی ہے ‘ سیاسی کالم زیادہ پڑھے جاتے ہیں‘ملکی عدم استحکام اور آمرانہ طرز حکومت کے باعث سیاسی موضوعات پر لکھنا ضروری ہوتا ہے‘ روٹین سے ہٹ کر رپورٹ پیش کرنے سے چینل کی ریٹنگ گر جاتی ہے‘ہماری صحافت بنیادی طورپر بیانات پر ہی چلتی ہے‘بہت کم کالم نگار تحقیقاتی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف کالم نگار انصار عباسی، معروف کالم نگار مظہر عباس اور معروف کالم نگار ڈاکٹر سید نواز الہدیٰ نے نمائندہ جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیاکہ ’’ہمارے کالم نگاروں کی اکثریت صرف سیاسی موضوعات پر کیوں لکھتی ہے؟‘‘ انصار عباسی نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ سیاسی کالم زیادہ پڑھے جاتے ہوں عوام سیاسی کالم پر زیادہ متوجہ ہوتی ہو‘ بعض اوقات ضروری بھی ہو جاتا ہے کہ سیاسی موضوعات پر لکھا جائے‘ سب موضوعات اہم ہوتے ہیں لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ میں خود معاشرے کے سوشل ایشوز اور دینی معاملات پر کالم نگاری کروں ‘یہ بات اہم اس لیے سمجھتا ہوں کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک سی ڈگر پر چل رہی ہیں بجائے ان کے معاملات میں الجھا جائے‘ اس کے برعکس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اپنے معاشرے میں وہ کون سے ایشوز ایسے ہیں جہاں مسائل کا فقدان ہے تاکہ ان مسائل کو سامنے لا کر ان کا حل تلاش کیا جائے اور معاشرے کو خرابیوں سے بچایا جاسکے‘ ہمارے ٹی وی چینلزکی اکثریت زیادہ تر سیاسی ایشوز پر ہی ٹاک شو کرتی ہے اور لکھاری بھی اس ہی کی پیروی کر رہے ہیں جبکہ ہمارے سوشل ایشوز بہت اہم ہیں‘ خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا معاشرے کو مثبت اور منفی سمت میں لے جانے کا اہم ذریعہ ہے‘ ٹی وی چینلز بہت سی اچھی چیزیں بھی پیش کر تے ہیں لیکن یہ معاشرے میں بہت بڑی خرابی کا باعث بھی بن ر ہے ہیں‘ الیکٹرونک میڈیا نے سماجی اور دینی اقدار کو بری طرح تباہ کیا ہے‘ ہمارے ٹی وی چینلز ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیںکر تے بلکہ وہ ایک ایسے معاشرے کی ترجمانی کر رہے ہیں جس میں گانے بجانے اور فنکاروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘ اسی ڈگر پر پرنٹ میڈیا بھی چل نکلا ہے ‘ لکھاریوں کو معاشرے کے اصل ہیروز اور تہذیب وتمدن اور مسائل پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ معاشرے کے اصل ہیروز کی سوچ کو سامنے لا کر بروقت معاشرے کی خامیوں کا تدارک کیا جاسکے‘ بدقسمتی سے ہمارے لکھاری کی توجہ کسی اور جانب مبذول ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر آگیا ہے اس تباہی میں بلواسطہ، بلا واسطہ جان بوجھ کر اور انجانے میں میڈیا کا حصہ بھی کافی زیادہ ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ ہمارے ملک کے صحافتی ڈھانچے کی70 فیصد خبریں سیاسی ہوتی ہیں‘ کالم بھی اس حوالے سے لکھے جاتے ہیں کیونکہ ہمیشہ جو خبر نشر ہوتی ہے‘ لکھاری اس خبرکو پڑھ اور سمجھ کر ہی اس کی بنیاد پر تجزیہ لکھتا ہے‘ بہت کم ایسے لکھاری ہوتے ہیں جو فیلڈ میں جاکر تحقیقات کی بنیاد پر کالم نگاری کرتے ہیں‘ ہمارے ہاں تحقیقاتی رپورٹنگ کا کلچر بہت کم ہے‘ اس لیے ہمیں اور آپ کو زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ لکھاری زیادہ تر سیاسی موضوعات پر لکھ رہے ہیں‘ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ہمارے ہاں زیادہ تر سیاسی عدم استحکام رہتا ہے اس لیے لکھاری اگر دوسرے کسی موضوع پر لکھے گا تو عوام میں اس کے کالم کو زیادہ پذیرائی نہیں دی جائے گی کیونکہ عوام موجودہ صورت حال کو جاننا چاہتے ہیں‘ دوسری جانب ہماری صحافت بنیادی طور پر بیانات پر ہی چلتی ہے اور یہ صورت حال اب ٹی وی چینل پر بھی نظر آتی ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ لکھاریوںکو یہ بات محسوس کرنی چاہیے کہ اگر جیل، جرائم، تعلیم، صحت ودیگر مقامی مسائل پر لکھا جائے تو عوام ضرور پڑھیں گے مگر ہمارا المیہ ہے کہ کہ 75سال میں دیکھا یہی گیا ہے کہ ہمارے کلچر میں سیاسی موضوعات ہی زیادہ زیر بحث آتے ہیں‘ کچھ دہائیوں قبل شام کے اخبارات نے روایت کو بدلا اور انہوں نے مقامی مسائل پر لکھنے کا آغاز کیا‘ سیاسی خبروں کو اخبار میں جگہ کم دی گئی بعد ازاں شام کے اخبارات میں بھی سیاسی کلچر نے آہستہ آہستہ جگہ لے لی‘ دراصل ہمارے ملک کا ماحول ہی ایسا بنا ہوا ہے کہ جہاں سیاست بکتی ہے لہٰذا ٹی وی پروگراموں میں بھی زیادہ تر ٹاک شوز میں بھی سیاسی موضوعات پر ہی اظہار خیال کیا جاتا ہے‘ اگر کوئی چینل روٹین سے ہٹ کر تحقیقاتی یا معلوماتی رپورٹ پیش کرتا ہے تو اس کی ریٹنگ کا گراف گر جاتا ہے‘ اسی لیے ٹی وی چینلز نے کرائم شوز الگ کر دیے لیکن کرائم شوز میں بھی جو نظر آتا ہے وہ اصل حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ کافی حد تک بناوٹی ہوتا ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ بین الاقوامی دنیا کا موازنہ کیا جائے تو وہاں کی صحافت میں 2 چیزیں نظر آئیںگی ، پہلا باہر کے اخبارات میں مقامی مسائل کو بہت زیادہ اجا گر کیا جاتا ہے ‘ دیگر ممالک میں کسی کے خلاف اسکینڈل لکھنا یا رپورٹ پیش کرنے کا مطلب ہے کہ سخت قوانین کا سامنا کر نے اور بھاری جرمانو ں کے لیے تیار ہو جائیں ‘ یہی وجہ ہے کہ باہر کے اخبارات نے اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنے بجٹ میں ایک بھاری رقم رکھی ہوتی ہے‘ دراصل وہاں کے اخبارات جب اس طرح کی رپورٹ پیش کرتے ہیں تو ان اسکینڈل کو نشر کرنے سے قبل اتنا بڑھا چڑھا دیتے ہیں جس سے اخبارات کی سرکولیشن میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے جرمانے کی رقم ان پر گراں نہیں گزرتی‘ ہمارے ہاں زیادہ تر چینلز نے صحافت کے رویے کو تبدیل نہیں کیا اور اپنے پروگرامز میں بھی اخبارات کی روش کو ہی بر قرار رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر سید نواز الہدیٰ نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں حقیقی سیاسی شعورعوام الناس میں پروان نہیں چڑھ سکا جس کے نتیجے میں مختلف گروہ اور قومیتوں میں تقسیم عوام اپنے مفادات کے تحفظ میں آمرانہ طرز عمل کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں‘یہی وجہ ہے کہ سیاست کے نام پر حکومتیں تو بن جاتی ہیں مگر آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے وہ فرعونیت کا سبب بن جاتی ہیں‘ انتظامی امور میں بدمزگی کے باعث ہر طرف مختلف زیادتیوں کا دور دورہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالم نگاروں کی اکثریت بآسانی ان خبروں تک رسائی رکھتی ہے جس کی وجہ انہیں اپنے کالم کے لیے مواد حاصل کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ جتنی زیادہ زیادتیوں والی داستان ہوگی اتنے ہی زیادہ قاری دستیاب ہوتے ہیں‘ اس کے علاوہ بہت سے کالم نگار سیاسی پارٹیوں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے بھی ہر وقت اپنی پسندیدہ پارٹی کی تعریف اور مخالف پارٹی پر تنقید کا ماحول گرم رکھتے ہیں‘ آسان لفظوں میں ٹرینڈ دیکھ کر کالم نگاری کی جاتی ہے ۔