کویتی ٹینس اسٹار، صہیونی کاک پٹ اور مسلم حکمران

489

پہلا حصہ

کویت کی شاہراہوں پر آج کل ایک 13سالہ بچے کی تصویر کے بڑے بڑے ہورڈنگز آویزاں ہیں۔ ائر پورٹ سے لے کر عوامی مراکز تک ’’شکراً… یابطل‘‘ کے پینا فلکس روشن ہیں۔ محمد العوضی نامی اس بچے نے وہ کردکھایا کہ عقل دیکھتی ہی رہ گئی اور عشق نے وہ منازل طے کرلیں کہ ناکامی پر کامیابی کی نظریں بھی جھکی جھکی شرمسار شرمسار ہیں۔ اس بچے نے گزشتہ دنوں دبئی میں ہونے والے ٹینس ٹورنامنٹ میں اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ کھیلنے سے انکار کردیا حالانکہ وہ اس انڈر فورٹین ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا تھا جس میں 50ممالک کے 300 کھلاڑی حصہ لے رہے تھے، اسے جب پتا چلا کہ سیمی فائنل میں اس کا مقابلہ صہیونی ریاست کے کھلاڑی کے ساتھ ہے تو اس نے ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کردیا اور اس کے ساتھ کھیلنے سے انکار کردیا۔ محمد العوضی کے اس انکار نے اسے کویت کا قومی ہیرو بنادیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس بچے کو بے حد پزیرائی مل رہی ہے۔ العوضی نے امت مسلمہ کے دیرینہ موقف کا جس طرح عملی اظہار کیا ہے سوچ، سچائی دانائی اور غیرت سے عاری مسلم حکمرانوں کے داغدار ماضی حال اور مستقبل کے عزائم کے لیے اس میں ڈوب مرنے کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک ویڈیو اور ایک خبر بھی ملا حظہ فرمائیے۔ بحوالہ ٹی آر ڈاٹ کام۔ ویڈیو اسرائیلی صدر کے دفتر نے جاری کی ہے۔ ویڈ یو میں اسرائیلی صدر آئزک ہیرزوگ (اسحاق برتسوغ) کے طیارے کا اندرونی منظر دکھایا گیا۔ صہیونی صدر متحدہ عرب امارات کے پہلے دوررے پر محو پرواز ہے۔ پائلٹ کہہ رہا ہے ’’اب ہم سعودی عرب کی فضائوں میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ ایک تاریخ رقم ہوگئی ہے‘‘۔ یہ سن کر اسرائیلی صدر خوشی اور مسرت کے عالم میں کاک پٹ میں داخل ہوتا ہے۔ پائلٹ صدر کو نقشے میں نیچے سعودی سرزمین دکھا رہا ہے اور کہتا ہے کہ ’’عنقریب اس (سعودی عرب) کے دارالحکومت (ریاض) پر بھی ہمارا قبضہ ہوجائے گا‘‘۔ واضح رہے کہ پائلٹ کی بات گریٹر اسرائیل کے اس دعوے کے مطابق ہے جس میں مدینہ منورہ بھی اسرا ئیل کا حصہ ہے۔
اور اب خبر۔ اس ملک کے حوالے سے جس کا مطلب لا الہ الا اللہ قراردیا گیا تھا۔ یکم فروری 2022 سے امریکی بحری مشقوں ’’بین الاقوامی سمندری مشق (IMX/CE22)‘‘ کا آغاز ہے۔ جس میں مسلمانوں کے بدترین دشمن ممالک امریکا اور اسرائیل کے ساتھ پاکستانی بحریہ فوجی مشقیں کرے گی۔ قابل فخر افواج پاکستان کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین باصلاحیت افواج میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے قیام اور اس کی بقا کے تسلسل میں امریکی کردار اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر صہیونیوں کا قبضہ امت مسلمہ کی پیٹھ میں وہ چھرا ہے جس سے آج تک خون رس رس کر ہر مسلمان کی آنکھ کو لہو رلارہا ہے۔ پاکستانی افواج کی مسلمہ جنگی حکمت عملی اورصلاحیتوں کا زمانہ معترف ہے۔ کیا ان مشقوں کی صورت میں یہ سب کچھ عالم اسلام کے بدترین دشمنوں کے سامنے کھل نہ جائے گا؟ وہ اسرائیل اہل فلسطین کے قتل عام پر جس کی ہمیں سمندری ناکہ بندی کرنی چاہیے اس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں!!
دوسری جنگ عظیم کے بعد نوزائیدہ یہودی ریاست کی حیثیت خطے میں امریکی سامراج کے نئے عزائم کے لیے تزویراتی اثاثے سے کم نہیں تھی۔ فلسطین کی مقدس سرزمین پر خود فلسطینیوں کو تحلیل کرنے اور ان کا وجود ختم کرنے کے عزائم کے ساتھ جس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ صہیونیت کے بدنام زمانہ جغرافیائی تصوراتی خیال ’’ارض اسرائیل‘‘ کو وجود دینے کے بعد فلسطینی وہ مہاجر ہیں جنہیں کبھی اپنے ملک میں واپس آنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ عرب جو اس سرزمین کے مالک تھے اب غارت گر اور دہشت گرد قرار پائے جن کا خون بہانا ایک مقدس مشن ہے۔ پورا یورپ اور امریکا اس مشن کی تکمیل میں صہیونی ریاست کے ساتھ اور اس کا مددگار ہے حالانکہ یہودیت اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائیت میں بھی ایک حقیر مذہب رہا ہے۔ سولھویں اور سترہویں صدی عیسوی تک عیسائی ریاستوں میں یہودیوں کو اونچی دیواروں سے گھرے ہوئے باڑوں میں رکھا جاتا تھا۔ غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب تک جہاں سے نکلنے کی انہیں اجازت نہ تھی۔ ان احاطوں میں زندگی بہت افسوس ناک تھی۔ یہودیوں کو اعلیٰ صنعتوں میں ملازمت پر نہیں رکھا جاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے زار روس کے زمانے میں بھی یہودی احاطے اور آئے دن یہودیوں کا قتل عام کوئی اہم بات نہیں تھا۔ صلیبیوں نے جب یروشلم پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام یہودیوں کو بھی قتل کردیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرایا تو یہودیوں کو وہاں واپس آنے کی اجازت دی۔ یہ مسلم دنیا تھی جہاں یہودیوں کو پناہ اور مراعات حاصل تھیں۔
انقلاب فرانس مغربی یورپ کے یہودیوں کے لیے 1789ء میں آزادی کی خوش خبری تھا۔ جمہوریت، جمہوری آئین یا پارلیمانی قانون سازی نے انہیں ایک نیا اعتماد اور تحفظ دیا۔ انیسویں صدی کے آخر میں روسی انقلاب نے مشرقی یورپ کے یہودیوں کو وہی اعتماد اور تحفظ دیا۔ جمہوریت یہودیوں کے لیے ایک خوش کن تجربہ تھا لہٰذا وہ اس کے سب سے بڑے علمبردار بن گئے۔ اس میں ان کی بقا تھی کیونکہ جہاں کہیں جمہوریت ناکام ہوئی جیسا کہ جرمنی میں وہاں یہود دشمنی ناقابل تصور اور دہشت ناک انتقامی جذبے سے واپس آگئی۔ بہرحال جہاں ایک طرف انقلاب فرانس، اور انقلاب روس یہودیوں کے لیے آزادی کی خوش کن ہوائیں تھی وہیں انیسویں صدی میں مشرقی یورپ کے غریب یہودیوں کے لیے امریکا ایک نیا آزاد وطن تھا جو ان کاسب سے بڑا میزبان تھا جو دس لاکھ یہودیوں کے لیے ہجرت اور آبادکاری کے لیے ایک بڑی مقناطیسی کشش تھا۔ ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کے زوال میں بھی ان کے لیے زمینی وسعتوں کے بے پناہ راستے کھل رہے تھے۔ سلطنت عثمانیہ اس وقت عالم اسلام کے ہم معنی تھی جہاں سے اسلام کا پیغام وسطی یورپ کے اندر تک پہنچا۔ سلطنت عثمانیہ کا زوال یورپ کے لیے ناقابل یقین خواب کی تعبیر تھی۔ ایک طرف برطانوی جاسوس لارنس آف عربیہ عثمانی ظلم وستم کے نام پر عربوں کی قیادت کررہا تھا۔ دوسری طرف برطانیہ کے تھیٹروں میں سلطنت عثمانیہ کی فوجوں اور وسطی یورپ کے عیسائیوں کے جنگی معرکوں پر مبنی درامے اسٹیج کیے جارہے تھے جن میں مسلمانوں کا ایک خونخوار عیسائی دشمن تصور مبالغوں کی آخری حدتک اضافہ کرکے دکھایا جاتا تھا۔
یہی وہ حوصلہ افزا حالات تھے جب یہودی تھیوڈور ہرزل (جس نے صہیونی تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا تھا) نے 1901ء میں ترکی کے خلیفہ سلطان عبدالحمید کو باقاعدہ پیغام بھجوایا کہ یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اگر آپ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ سلطان نے جواب دیا ’’برائے مہربانی ڈاکٹر ہرٹزل کو کہیں کہ میں فلسطین کی زمین کا ایک ہاتھ کے برابر حصہ بھی بیچ نہیں سکتا کیوں کہ یہ میری نہیں مسلم امہ کی سرزمین ہے۔ میرے لوگوں نے اس کے لیے سخت جنگیں لڑی ہیں اور اپنے خون سے اس کو سیراب (Irrigate) کیا ہے۔ یہودی اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں۔ اگر ایک دن اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تو یہ فلسطین کو بغیر کسی قیمت کے حاصل کرسکتے ہیں لیکن جب تک میں زندہ ہوں چاہے میرے بدن کے ٹکڑے کردیے جائیں یہ فلسطین کو اسلامی ریاست سے جدا نہیں کرسکتے‘‘۔ یہودی سازشوں اور یورپی سیاست دانوں کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں ایک طرف سلطنت عثمانیہ کو صرف ترکوں کی ریاست قراردے کر غیرترک مسلمانوں کی ہمدردیوں کا رخ تبدیل کیا گیا دوسری طرف ترکوں اور عربوں میں وہ قوم پرستی پیدا کی کہ پہلی جنگ عظیم میں ترک اور عرب ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے۔
(جاری ہے)