مشرق وسطیٰ کا آتش فشاں

391

اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گنٹز گزشتہ بدھ کو خلیجی ریاست بحرین پہنچ گئے ہیں جو اسرائیل اور بحرین کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد سے تازہ ترین حالات میں کسی اسرائیلی عہدیدار کا اعلیٰ سطح کا پہلا سفارتی دورہ ہے۔ اس دورے سے متعلق بحرین کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل عبداللہ بن حسن النعیمی نے بحرین کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اسرائیلی وزیر دفاع بینی گنٹز کا استقبال کیا۔ اس دورے کے بارے میں اسرائیلی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر اسرائیل اور بحرین نے سیکورٹی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو اسرائیل اورکسی خلیجی ملک کے درمیان پہلا معاہدہ ہے۔ اس دو طرفہ معاہدے کا فریم ورک انٹیلی جنس، ملٹری، صنعتی ترقی اور مزید شعبوں میں تعاون کی راہیں ہموار کرے گا۔
اس دورے میں اسرائلی وزیردفاع نے بحرین میں امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا۔ دورے کے بعد ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے سمندری اور فضائی خطرات کے تناظر میں ہمارا یعنی امریکا اور اسرائیل کا فولادی تعاون پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اس ہفتے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ پہلی بار کھلے عام سعودی عرب اور عمان جن کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں 60 ممالک پر مشتمل امریکی قیادت میں مشرق وسطیٰ کی بحری مشقوں میں شامل ہو رہا ہے۔
بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے دو سال سے بھی کم وقت کے عرصے میں ہوا ہے۔ بحرین خلیج کا متحدہ عرب امارات کے بعد دوسرا اور عالم عرب کا مصر اور اردن کے بعد چوتھا ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی اہمیت کی حامل ہے کہ پچھلے سال اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپڈ نے بھی بحرین کا پہلا باضابطہ دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے اسرائیل کے پہلے سفارت خانے کا افتتاح کیا تھا۔ بحرین اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کا معمول پر آنا امریکا کی ثالثی میں ہونے والے معاہدوں کی ایک سیریز کا حصہ تھا جسے معاہدہ ابراہیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں امریکی دبائو پر بعض عرب ممالک نے اسرائیل سے متعلق اپنی روایتی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے نہ صرف اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ دشمنی پر مبنی تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے جس پر فلسطینیوں میں کافی غم اور غصہ پایا جاتا ہے جب کہ ایران بھی اس پیش رفت کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ ان معاہدوں پر وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے پیش رو بنجمن نیتن یاہو نے بات چیت کا آغاز کیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو ایران کے خلاف نئے علاقائی اتحادیوں کی پیشکش کریں گے اور تہران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے اس کی سفارتی کوششوں کو تقویت دیں گے۔
بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر عرب لیگ کا وجود بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ عرب لیگ شروع دن سے ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سیاسی اور سفارتی محاذ پر سرگرم عمل رہی ہے لیکن پچھلی دودہائیوں سے مشرق وسطیٰ خاص کر شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جاری خانہ جنگیوں نیز بعض عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے باعث اضمحال کی شکار ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے بحرین میں اپنا پہلا دورہ ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب ایک جانب بین الاقوامی سطح پر یوکرائن کے تنازع پر روس، امریکا اور ناٹو کے درمیان شدید بدمزگی اور تنائو اپنے عروج پر ہے جب کہ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں کئی سال سے جاری کشت وخون میں بھی مزید تیزی آتی جارہی ہے۔ یمن میں برسراقتدار اور سعودی ومتحدہ عرب امارات کی قیادت میں عرب اتحاد سے برسرپیکار حوثی باغیوں کی جانب سے نہ صرف سعودی عرب پر راکٹ حملے جاری ہیں بلکہ حال ہی میں پہلی دفعہ حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات کے دوسرے بڑے شہر ابوظبی کے ایک آئل ٹرمینل پر ڈرون حملہ کر کے پورے خطے کو ایک نئے آتش فشاں میں تبدیل کردیا ہے۔ گو اس غیر متوقع حملے جس میں تین افراد جان بحق ہوگئے تھے کے بارے میں متحدہ عرب امارات یا اس کے اتحادی سعودی حکومت کی جانب سے کوئی باقاعدہ ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ عرب امارات کے لیے اس اچانک حملے پر خاموش رہنا یا اسے خاموشی سے برداشت کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس خاموشی کو جہاں عرب امارات کی کمزوری پر محمول کیا جائے گا وہاں اس سے شہہ پاکر حوثی باغی عرب امارات حتیٰ کہ بعض دیگرعرب اتحادی ممالک پر بھی مزید حملوں کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں۔
اس پس منظر میں اگر اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ کے پہلے سرکاری دورہ عرب امارات نیز گزشتہ روز امریکا کی جانب سے شام میں داعش کے سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی القریشی کو امریکی اسپیشل فورسز کی ایک تازہ کارروائی میں نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کے دوبارہ اور اس کے لے پالک اسرائیل کے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی لانے کے حوالے سے متحرک ہونے کا مقصد ایران کو مشرق وسطیٰ اور خلیج میں اس کے بڑھتے ہوئے اثرات اور جارحانہ عزائم کے حوالے سے کھلی وارننگ دینا ہے جب کہ ان سرگرمیوں کے بارے میں بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ ایران کے ساتھ اس کے نیوکلیئر پروگرام پر از سر نو شروع ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں مغربی ممالک کی جانب سے من پسند معاہدے کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس تمام بحث سے قطع نظر توقع ہے کہ خطے کے تمام اسلامی ممالک کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے جہاں خطے کے معروضی حالات کو مدنظر رکھیں گے وہاں ان کی نظروں سے اسرائیل کے فلسطینیوں پرڈھائے جانے والے سنگین مظالم اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم بھی پوشیدہ نہیں رہیں گے۔