پی پی‘ ن لیگ ملاقات حکومت پر دباؤ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں

300

کراچی (تجزیاتی رپورٹ: محمد انور) پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنماؤں کے درمیان 2 روز قبل ہونے والی ملاقات کو سیاسی حلقے غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں تاہم ان حلقوں کو یہ بھی یقین ہے کہ آصف زرداری، بلاول زرداری اور شہباز شریف و حمزہ شریف کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات فوری طور پر محض حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ان ملاقاتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا یا دعویٰ کرنا بھی غلط ہوگا کہ یہ ملاقات حکومت سے نجات کیلیے آئندہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا باعث ہے۔ ان حلقوں کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات کا اصل مقصد تعلقات کی بحالی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) وجہ سے پیدا ہوجانے والے اختلافات کو ختم کرنا تھا جو دونوں پارٹیوں کے مشترکہ مفادات کی تکمیل کیلیے بھی ضروری تھا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور بلاول زرداری سمیت پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے شہباز شریف کی دعوت قبول کرنا اور ان کے گھر پہنچنا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ملاقات کا سلسلہ شہباز شریف کی جانب سے شروع ہوا تھا۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان پائی جانے والی رنجشیں تو یقیناً ختم ہوئی ہوں گی اور جبکہ اس ملاقات سے آئندہ کی سیاسی حکمت عملی اور خصوصی طور پر حکومت کے خلاف سخت حکمت عملی کو مکمل کرنے کے بارے میں بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان تعلقات کا استحکام دونوں جماعتوں کیلیے مجبوری اور ناگزیر بھی ہے، مسئلہ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کا ہے۔ امکان ہے کہ جلد ہی دونوں پارٹیوں کے رہنما پی ڈی ایم اور مضبوط بنانے کیلیے اپنا اپنا کردار ادا کریں گے تاہم تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اس اہم ملاقات کے باوجود اطمینان ہے کہ حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کو قومی احتساب بیورو کے مقدمات کا بھی سامنا ہے اور دوسری طرف ان کے درمیان سیاسی معاملات میں ہم آہنگی کا فقدان بھی پایا جاتا ہے۔