یہ طے کرنا روز بروز دشوار تر ہوتا جارہا ہے کہ چین ہمارا دوست ہے یا دشمن۔ ایک طرف چین سے مختلف معاملات میں ٹاکرے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف اُس سے 100 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کی سالانہ تجارت ہو رہی ہے۔ سرحدی کشیدگی کے باوجود اِتنے بڑے پیمانے پر دو طرفہ تجارت تشویش ناک ہے۔ چین کی موبائل کمپیوں نے بھارت سے پانچ ہزار کروڑ سے بھی زائد رقم کا منافع باہر بھیجا ہے۔ یہ بات بالائے فہم ہے کہ چین کے معاملے میں بھارتی عوام کو زیادہ سے زیادہ اندھیرے میں کیوں رکھا جاتا ہے؟ جب یہ معاملہ کھل کر سامنے آئے گا تب کیا ہوگا؟ کیا سرحدی معاملات میں دشمن کے طور پر سامنے آنے والا چین تجارت کے معاملات میں دوست ہے؟
کچھ مدت سے بھارت میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ چین ہمارا دوست ہے کہ دشمن۔ ہمیں تواتر کے ساتھ یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھارت کا سب سے بڑا دشمن کوئی ہے تو چین ہے۔ بھارت کے متعدد سرحدی علاقوں میں چینی افواج بہت اندر تک آئی ہیں اور قابض ہو بیٹھی ہیں۔ تصادم اور جھڑپوں میں متعدد بھارتی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ بھارت کی متعدد ریاستوں میں چین کا مال نہ خریدنے کی مہم بھی شروع کی گئی ہے جو اب تک ناکام رہی ہے۔ بھارتی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے چین کی ایپس کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا قدم اٹھاکر بھی دیکھ لیا۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ اور تجارت سے متعلق اعدادو شمار اپنی جگہ۔ ایک طرف دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی پائی جاتی ہے اور بعض سیاسی اور سفارتی امور پر بھی غیر معمولی نوعیت کے اختلافات برقرار ہیں اور دوسری طرف دو طرفہ تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر کی ریکارڈ حد پار کرگیا ہے۔ لدّاخ کے علاقے میں سرحدی کشیدگی بہت زیادہ ہے۔ شاید اس لیے بھارتی حکومت چین سے تجارت کے معاملات کو بہت دباکر رکھتی ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان تجارت 2001 میں شروع ہوئی تھی۔ تب سالانہ دو طرفہ تجارت کا حجم ایک ارب 82 کروڑ ڈالر تھا۔ 11 برس میں یہ تجارت 100 ارب ڈالر سے زائد ہوچکی ہے۔ چین کی جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز کا کہنا ہے کہ اس وقت دو طرفہ تجارت 114 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جنوری تا نومبر 2021 بھارت چین تجارت میں کم و بیش 46 فی صد کا اضافہ ہوا۔ چین کے لیے بھارتی برآمدات بڑھ کر 26 ارب 36 کروڑ ڈالر ہوچکی ہیں۔ اس میں ہر سال 35 فی صد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بھارت کے لیے چین کی برآمدات 46 فی صد اضافے کے ساتھ 88 ارب ڈالر ہوچکی ہیں۔
ایک طرف تو بھارت چین تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر سے زائد ہوچکا ہے اور دوسری طرف چین سے تجارت میں بھارت کا خسارہ بھی 11 فی صد کی رفتار سے بڑھا ہے۔ بھارت کا مجموعی تجارتی خسارہ 61 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
معروف تجزیہ کار برہما چیلانی کہتے ہیں کہ مودی سرکار کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ ایک طرف سرحدی کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی کا مطلب تو یہ ہوا کہ چین نے بھارت کو کسی بھی طور نارمل حالت میں رہنے نہیں دیا۔ چین کے ساتھ تجارت میں بھارت کا خسارہ اس وقت بھارتی دفاعی بجٹ کے مساوی ہے۔ گزشتہ برس 5 مئی سے بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تصادم شروع ہوا تھا۔ پینگانگ تالاب کے کنارے تعمیرات کے حوالے سے دونوں مماک کے درمیان کشیدگی کا آغاز ہوا۔ چین نے بھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے اور بھارت بھی یہی چاہتا ہے کہ سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا رہے۔ لڑائی بھی اور تجارت بھی۔ 31 جولائی 2021 میں بھارت اور چین کے درمیان بات چیت ہوئی تھی جس کے بعد گوگرا میں دونوں ممالک کی افواج نے پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے آپ کو مکمل تیاری کی حالت سے نکال لیا تھا۔ دونوں ممالک نے لائن آف ایکچیوئل کنٹرول (LAC) کے ساتھ ساتھ کم و بیش ساٹھ ہزار فوجی تعینات کیے ہوئے تھے۔ اس بحرانی کیفیت میں امید کی کرن تھی تو ورکنگ میکینزم فار کنسلٹیشن اینڈ کوآرڈینیشن یعنی WMCC تھا۔ اس میکینزم کے تحت دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم اور اعلیٰ ترین سطح کے فوجی افسران ایک دوسرے سے مسلسل رابطے میں رہے اور تصادم کو ایک خاص حد تک رکھنے میں کامیاب رہے یعنی جنگ تک نوبت نہیں پہنچی۔ لدّاخ کی صورتِ حال نے تجارت کے سوا تمام معاملات کو سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔ ٹِک ٹاک سمیت چین کی متعدد ایپس بند کردی گئی تھیں۔ گزشتہ نومبر میں سنگاپور میں ایک کانفرنس کے موقع پر بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ بھارت چین تعلقات شدید کشدگی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ بیجنگ نے متعدد معاہدوں کی ایسی خلاف ورزی کی ہے کہ اب کوئی توضیح پیش کرنے سے بھی قاصر ہے۔
جب اتنی کشیدگی چل رہی ہے تو کیا بھارتی حکومت کو چین سے ہونے والی تجارت کا علم نہیں ہوگا؟ یقینا ہوگا۔ حال ہی میں بعض اہم شخصیات کے گھروں پر محکمۂ انکم ٹیکس کے چھاپوں سے بہت کچھ کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چین کی موبائل کمپنیاں غیر قانونی طریقے سے بھی کام کر رہی ہیں۔ معروف روزنامے دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق تامل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، مہا راشٹر، مغربی بنگال، آسام، مدھیہ پردیش، گجرات، بہار، دہلی، راجستھان اور دیگر ریاستوں میں چھاپے مارے گئے ہیں۔
محکمۂ انکم ٹیکس نے بتایا ہے کہ ان چھاپوں کے نتیجے میں بہت سے کیس کھل کر سامنے آئے ہیں۔ دو بڑی چینی موبائل کمپنیوں نے دیگر ممالک میں قائم اپنے ذیلی گروپوں کو مجموعی طور پر 5500 کروڑ روپے بھارت سے بھیجے۔ دونوں کمپنیاں اتنی خطیر رقوم کے حوالے توضیح میں ناکام رہی ہیں۔ گزشتہ دسمبر کے اواخر میں چینی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بھارت کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس نوعیت کی تحقیقات سے گریز کرے۔ چائنیز چیمبر آف کامرس اور انڈیا چائنا موبائل فون انٹرپرائزز ایسوسی ایشن نے بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ چینی کمپنیوں کے لیے بھارت میں غیر امتیازی ماحول ہونا چاہیے۔ بھارتی حکومت کے نام ان دونوں کے لکھے ہوئے خط کو چین کا سرکاری ترجمان سمجھے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے ٹوئٹ کیا تھا۔ اس خط میں کہا گیا کہ حال ہی میں محکمۂ انکم ٹیکس اور دیگر محکموں نے چینی کمپنیوں کے خلاف جو تحقیقات شروع کی ہیں وہ امتیازی نوعیت ہیں اور اُن سے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ خط کے مندرجات کے مطابق بھارت اگر اپنے ہاں کاروباری ماحول کو بہتر حالت میں رکھنا چاہتا ہے تو اس نوعیت کے اقدامات سے گریز کیونکہ اس کے نتیجے میں بھارت پر غیر ملکیوں اور بالخصوص چینیوں کے اعتماد میں کمی آئی ہیی اور سرمایہ کاری بھی کم ہوئی ہے۔ گلوبل ٹائمز کے ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ان چینی کمپنیوں نے بھارت میں 3 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور کم و بیش 4 لاکھ بھارتی باشندوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہی ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ چینی کمپنیاں بھارت میں کمائی ہوئی خطیر رقوم غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک بھیجنے میں مصروف ہیں۔ یہ رقوم 5 ہزار کروڑ سے زائد ہے۔ بہر کیف، یہ ڈبل گیم کب تک جاری رہے گا؟
(بشکریہ: روزنامہ لوک سَتّا، احمد آباد۔ یکم فروری 2022)