کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی)خاندانی نظام کا شیرازہ سیکولر، لبرل، مغربی تہذیب کی ذہنی غلامی اور اس کی اندھی تقلید کی وجہ سے بکھر رہا ہے‘خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرنے کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے ‘چند اہم وجوہات میں سے ایک آج کا تعلیمی نظام ہے ‘خاندان کی بنیاد نکاح کو نفسانی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ بنادیاگیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز مذہبی اسکالر اور مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ مفتی نعمان نعیم، معروف دانشور اور روز نامہ جنگ کے مدیر ثروت جمال اصمعی اور تجزیہ نگار سید محمد مظفر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ معاشرے میں خاندانی نظام کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے؟‘‘ مفتی نعمان نعیم نے کہاکہ معاشرے میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرنے کی ایک بڑی وجہ تو اسلامی تعلیمات سے دوری ہے ‘دوسری وجہ نکاح جو خاندان کی بنیاد ہے اس کو نفسانی خواہش کی تکمیل کا ذریعہ بنادیاگیا ہے حالانکہ خاندان کی بنیاد اور تکمیل ہی نکاح ہے۔ ایک بڑی وجہ وہ تربیت اور شعور ہے ہیںجو ہم اپنی نسلوںکو میڈیا،
سوشل میڈیا یا فلموں اور ڈراموںکے ذریعے دے رہے،جونہ صرف اسلامی معاشرے سے متصادم ہوتا ہے بلکہ مشرقی روایات کیخلاف بھی ہے جو نوخیز ذہنوں کو خاندانوں سے دور کرنے کا بھی باعث بن رہاہے ،آج شادی کے فوراً بعد میاںبیوی کا والدین سے الگ رہنے کا رواج چل پڑا ہے جس کی وجہ اولاد اپنے بزرگوں کی تربیت سے محروم ہورہی ہیںانہیںروایتی طور پر دودھیالی رشتہ داروں کی محبت نہیں ملتی اور یہی دوریاں پھر خاندانی نظام میںکمزوریوںکی وجہ بن جاتی ہے اور اس وجہ کو بھی ہم نظر انداز نہیںکرسکتے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے ملازمت اور کاروبار میں ایسا الجھا دیا ہے کہ ہمارا زیادہ تر وقت خاندان کے بجائے دفاتر وغیرہ میںگزر جاتاہے ،یہ سرگرمیاں ہمیں خاندان کے احساس سے بھی محروم کردیتی ہیں‘ اگر ہم اپنی زندگیاں شریعت کے مطابق گزاریں اورقران وحدیث کی تعلیمات پر عمل کریں اس کو معیار بناکر باہمی خلوص اور محبت سے رہیں جس کا تقاضا ہم سے اسلام کرتا ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خاندانی نظام کو نقصان پہنچے اور آپس میں دوریاں پیدا ہوں۔ قران مجید کی سورہ النسا میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے،اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کے بگاڑ نے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :رشتہ داری رحمن (کے نام) کی ایک شاخ ہے۔خاندان کا آغاز ایک مرد اور عورت کے نکاح سے ہوتا ہے اور یہی خاندان کی بنیاد ہے ، اسی لیے نکاح کو اسلام نے معاشرتی بگاڑ ، بے راہ روی اور خرابیوں سے بچائو کے لیے لازم قرار دیا ہے ۔مفتی نعمان نعیم کا کہنا تھاکہ خاندان میں ماں باپ، دادا دادی، بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں سب شامل ہیںجن میں سے ہر ایک فرد کے حقوق وفرائض اسلام نے بیان کیے ہیں اور ان سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ ثروت جمال اصمعی نے کہاکہ ہمارا خاندانی نظام تیزی سے زمیں بوس ہورہا ہے‘اس کا سبب سیکولر، لبرل، مغربی تہذیب کی ذہنی غلامی اور ہر شعبہ زندگی میں اس کی اندھی تقلید ہے‘ عالمی سطح پر مغرب کے تہذیبی غلبے کے باوجود مسلم معاشروں میں ایک مدت تک اسلامی روایات کی پابندی ، اس تباہ کن راستے پر ان کے آگے بڑھنے میں حائل رہی لیکن 40،50سال پہلے کے مقابلے میں آج صورت حال بہت بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔ مغربی قوتوں کی جسمانی غلامی کے دور میں آزادی کی تحریکوں نے مسلمانوں کی اکثریت کو ان سے متنفر رکھا تھا‘اہل فکرو دانش، شاعروں، ادیبوں اور سیاسی قائدین نے اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کیا لیکن آزادی کے بعد مغرب کی ذہنی غلامی میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا‘ سیاست ، معیشت، معاشرت، تعلیم، قانون سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں خدائی ہدایت سے بے نیاز سیکولر، لبرل ،مغربی فکر کی بے سوچے سمجھے تقلید عام ہوئی۔ گھر کے مرکز و محور اور نئی نسل کے معمار کی حیثیت سے عورت کے فطری دائرہ کار میں رہنے کو مسلم معاشروں میں بھی ملک کی آدھی آبادی کی صلاحیتوں کو ضائع کردینے کے مترادف قرار دیا جانے لگا۔زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ سرگرم عمل ہونے کا فلسفہ یہاں بھی کارفرما ہوا۔خاندانی زندگی میں مرد کو قرآنی اصطلاح کے مطابق قو ّامیت یعنی پورے گھرانے کی ضروریات کے بندوبست اور دیکھ بھال کی جو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے‘اسے مرد کی ظالمانہ برتری اور پدر سری معاشرت کی بنیاد قرار دے کر برملا مسترد کرنے کی تحریکیں شروع ہوئیں اور سرکاری اہتمام کے ساتھ منائے جانے والے عورت ڈے پر ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نعرے بلند ہونے لگے۔یہ وہ اسباب و حالات ہیں جن کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں بھی خاندانی نظام کے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہونے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ غلامانہ ذہنیت کے حامل معاشرے اکثر وقت کی غالب تہذیب کے مثبت کے بجائے منفی پہلوؤں کی تقلید کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ اس صورت حال سے نجات کا راستہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارا معاشرہ وقت کی غالب سیکولر، لبرل تہذیب کی ذہنی غلامی سے مکمل طور پر نجات پائے اور خالق کائنات و انسان کے عطاکردہ نظام زندگی کو مکمل یقین و اعتماد کے ساتھ عملی طور پر اپنائے۔ یہ منزل کیسے حاصل ہوگی؟ سیدابو الاعلی مودودی علیہ الرحمۃ کے الفاظ میں اس کا طریقہ یہ ہے ’’ اب اگر اسلام دنیا کا دوبارہ رہنما بن سکتا ہے تواس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں جوفکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں جن پر[خدائی ہدایت سے بے نیاز]مغربی تہذیب کی عمارت تعمیر ہوئی ہے ملحدانہ نظریے کو توڑ کرہدایت الٰہی پر فکر و تحقیق کی اساس قائم کریں اور اس جدید فکر و تحقیق کی عمارت کواس قوت کے ساتھ اٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجائے اسلام کی حقانی تہذیب جلوہ گر ہو‘‘(تنقیحات، ص:۱۹ – ۲۰) سید محمد مظفر نے کہاکہ خاندان کے بنانے اور نسلوںکی تعمیر میں ایک عورت بحیثیت ماں، بیوی، بہو اور ساس اور دیگر تمام رشتوں میں بہت اہم کردار کی حامل ہے لیکن قابل غور و فکر ہے کہ معاشرے نے عورت اور اس کردار کے ساتھ کیا کیا؟ آج ہمارے سماج میں2 بڑے ایشوز اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک زوجین کے باہمی تعلقات، دوسرا والدین اور اولاد کے تعلقات۔ ان تعلقات کی وجہ سے سماج میں خاندانی اقدار متاثر ہو رہی ہیں اس کی وجوہات بہت سی ہیں لیکن چند اہم وجوہات میں سے ایک آج کا تعلیمی نظام ہے۔ بہترین تعلقات کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں وہ ہیں پیار، محبت، ایثار، قربانی، عفو و در گزر اور ان سارے جذبات سے آج کا تعلیمی نظام خالی ہے۔ پہلے عورت میں جدید تعلیم کی کمی تھی‘ معاشرتی تربیتی نظام مضبوط تھا‘ گھر کا ماحول اور خاندانی نظام خود بخود انہیں خاندانی اقدار سکھا دیتا تھا اور آنے والی زندگی کی تربیت فراہم کر دیتا تھا‘ ان پہلوؤں سے آج کی عورت محروم ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم پھر واپس ان سارے پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوں۔دوسری وجہ آج کا ہمارا میڈیا ہے۔ ٹی وی سیریل کے ذریعے سے ایسی ذہن سازی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے پرانی خاندانی اقدار متاثر ہو رہی ہیں اور انسان کی ساری ترجیحات خود اپنی ذات کے ارد گرد گھوم رہی ہیں۔ یہ میڈیا لڑائی جھگڑے اور بحث و مباحثہ کے لیے بہت سارا مواد فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان لوگوں کے سامنے ایسے کردار پیش کریں جو مثالی ہوں جس سے معاشرے پر اچھا اور بہترین اثر پڑتا ہے۔تیسری وجہ ایسی این جی اوز اور اداروں کی باقاعدہ سوچی سمجھی سرگرمیاں ہیں جو صنفی مساوات اور انسانی حقوق جیسے اہم اور مقدس موضوع کی آڑ میں مشرقی اقدار کا خاتمہ چاہتے ہیں۔