الطاف حسین نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے اور ’مکمل جنگ‘ کی بات کی،کنگسٹن میں گواہ کا بیان

421

لندن میں موجود متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف جاری نفرت انگیز تقریر کیس کے ٹرائل کے دوران سماجی انسانی رویوں کی ماہر، محقق اور برائٹن یونیورسٹی میں لیکچرار نکولہ خان نے ایک ماہر گواہ کے طور پر عدالت کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

مقامی انگریزی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر نکولہ خان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے صرف سیاسی یا فلاحی شعبے نہیں تھے بلکہ ایک دہشت گردی کا شعبہ بھی تھا جس کا پارٹی نے کبھی اعتراف نہیں کیا۔

ان کا یہ بھی موقف تھا کہ کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے رینجرز کی جانب سے پارٹی کے کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔

انہوں نے کہا کہ الطاف حسین نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے اور مہاجروں کے حقوق کے لیے ’مکمل جنگ‘ کی بات کی۔

ڈاکٹر نکولہ خان نے کہا کہ ایم کیو ایم پورے شہر کو اس حد تک بند کرانے کے قابل تھی کہ اس دوران شہر کی سڑکوں پر سفر کرنا بھی بہت خطرناک ہوتا تھا، تاہم 2016 میں شہر میں رینجرز کے آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کی طاقت بہت کم ہوگئی۔

انہوں نے عدالت میں ایم کیو ایم سے متعلق اپنی تحریری رپورٹ پیش کی اور ان پر استغاثہ اور کیس کا دفاع کرنے والے وکلا کی جانب سے جرح بھی کی گئی۔

ڈاکٹر نکولہ خان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں تشدد کے معاملات پر گزشتہ 20 سالوں سے تحقیق کر رہی ہیں اور وہ پاکستان میں مہاجر دہشت گردی پر ایک کتاب بھی لکھ چکی ہیں۔

انہوں نے پاکستان اور بھارت کی آزادی سے متعلق بھی تفصیل سے بات کی اور مہاجروں کی کراچی میں آباد کاری سے متعلق بھی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک طلبہ تنظیم کی حیثیت سے شروع ہوئی جو بعد میں ایک سیاسی پارٹی بن گئی۔

ماہر گواہ کا الطاف حسین کے بارے میں کہنا تھا کہ 90 کی دہائی میں پاکستان چھوڑ کر برطانیہ جانے کے بعد بھی ان کا پارٹی پر مکمل کنٹرول تھا، انہوں نے وضاحت کی کہ ایم کیو ایم کس طرح احتجاج اور سوگ کے دنوں کو مناتی تھی اور یہ کہ کراچی سے روانگی کے باوجود الطاف حسین کا کنٹرول ختم نہیں ہوا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 22 اگست کی تقریر کے بعد 2 ٹی وی چینلز ’اے آر وائی‘ اور ’سما‘ پر حملہ کیا گیا، وہاں پر فائرنگ بھی کی گئی اور مبینہ طور پر پولیس کی جانب سے تشدد کے دوران ایم کیو ایم کا ایک ورکر جاں بحق بھی ہوا۔

الطاف حسین پر برطانوی انسداد دہشت گردی ایکٹ (ٹی اے سی ٹی) 2006 کے سیکشن 1 (2) کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے جس کا تعلق دہشت گردی کی حوصلہ افزائی سے ہے۔

اس ایکٹ کی تعریف کے مطابق دہشت گردی کی حوصلہ افزائی جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے طور پر جس کے ذریعے عوام کی دہشت گردی کے لیے براہ راست یا بالواسطہ حوصلہ افزائی کی جائے، یا اپنے بیان کے ذریعے دیگر لوگوں کو ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں یا جرائم کا ارتکاب کرنے، تیار کرنے یا اکسانے کے لیے آمادہ کیا جائے۔

الطاف حسین نے بے قصور قرار دینے کی استدعا کی ہے اور پولیس انٹرویوز میں کہا ہے کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔

سماعت ملتوی کر دی گئی اور پیر کی صبح کنگسٹن اپون تھیمز کراؤن کورٹ میں دوبارہ شروع ہوگی۔