کشمیر جنت نظیر، خوبصورت، آبشاروں کی جھرْمٹ میں، اللہ تعالی کی تخلیق کردہ خوبصورت شاہکاروں میں سے ایک شاہکار، پھل پھول، پودے، چرند پرند، پہاڑوں اور نہروں کی خوبصورتیوں سے ہر وقت جگ مگ کرتا، دنیا میں جنت کا احساس دلانے والی خوبصورت وادی جی ہاں! یہ بات ہورہی ہے جنت کا ٹکڑا یعنی وادی کشمیر جو 915 دنوں سے جیل کا منظر پیش کر رہی ہے جہاں بچے، بوڑھے، عورتیں بھوک اور افلاس کی وجہ سے سسک سسک کر موت کی نیند سو رہے ہیں لیکن پاکستان کے حکمران خاموش؟
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
کشمیری عوام بہت بڑے معاشی بحران میں گھرے ہوئے ہیں خصوصاً جب سے بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔ انڈیا کے آئین کے اس آرٹیکل کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی، اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔ اس آرٹیکل کے تحت دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کے علاوہ کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت یا پارلیمان ریاست میں ریاستی حکومت کی توثیق کے بغیر انڈین قوانین کا اطلاق نہیں کر سکتی تھی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی صدارتی حکم کے تحت آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہو گیا ہے جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل باشندہ پہچان ہوتی تھی اور انہیں بطور مستقل شہری خصوصی حقوق ملتے تھے۔ انڈیا کے آئین میں جموں و کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35-A کا مسئلہ کشمیر سے بھی پرانا ہے۔ اس قانون کی رْو سے جموں کشمیر کی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری ریاست میں غیر منقولہ جائداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا، یہاں سرکاری نوکری حاصل نہیں کرسکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ تاہم اب کسی بھی انڈین شہری کو یہ تمام حقوق حاصل ہوں گے۔
آرٹیکل 370 اور 35A کے خاتمے کے بعد سے اب تک 907 دن سے وادی میں لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے جس کے معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (KCCI) کے
مطابق معیشت پہلے ہی بستر مرگ پر تھی۔ ٹرانسپورٹ کی صنعت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹیکسیاں پچھلے اڑھائی سال سے سڑکوں سے دور ہیں، جس سے کئی ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ کشمیر میں 60,000 سے زیادہ کمرشل ٹرانسپورٹ گاڑیاں ہیں، جو ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں۔ شہر کے دیگر حصوں کے برعکس، یہاں لاک ڈاؤن یا غیر مستحکم سیاسی حالات کے باوجود کاروبار کا جزوی آپریشن ممکن نہیں ہے۔ تاجروں کو 100 فی صد سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گزشتہ سال کشمیر میں معاشی نقصان تقریباً 40,000 کروڑ روپے تھا۔ دوسرے کوویڈ 19 لاک ڈاؤن کے بعد سے، روزانہ کا نقصان تقریباً 3000 کروڑ روپے ہے، برآمدات کو بھی 50 فی صد سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے مطابق جون 2020 اور مارچ 2021 کے درمیان 5,69,476 افراد اپنی روزی روٹی کھو بیٹھے، گزشتہ سال دسمبر میں جنوبی کشمیر کے ایک 28 سالہ کنٹریکٹر نے ایک مقامی اخبار میں اشتہار میں اپنا گردہ فروخت کرنے کی پیشکش کر کے کشمیر کو چونکا دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا شاید میں کام کر پاتا اور قرض ادا کر پاتا لیکن منسوخی اور وبائی امراض کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور معاشی بحران کے بعد مجھے کوئی کام نہیں مل سکا۔ سی ایم آئی ای کے مطابق اگست
سے ایک ماہ قبل کشمیر میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 14.74 فی صد تھی لیکن اگلے چھے ماہ میں تیزی سے بڑھ کر 21.08 فی صد ہو گئی۔
ماہرین کے مطابق موجودہ لاک ڈاؤن کے دوران مقامی تجارت کو روزانہ 150 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ کشمیر میں کاروباری اداروں کی مالی حالت ابتر ہے۔ مجموعی معاشی بحران کی وجہ سے، عوام کی خرچ کرنے کی طاقت بھی کم ہو گئی تھی، گزشتہ موسم سرما میں لاک ڈاؤن ہٹایا گیا تو خریداروں کا کوئی رش نہیں تھا۔ جو پہلے بازاروں میں ہوتا تھا وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ شوپیان کو ملک کے سیب کے پیالے کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ ضلع کے سیب کے باغات 21,676 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے ہیں، جو اسے جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع کے بعد سب سے بڑا سیب پیدا کرنے والا ملک بناتا ہے۔ کشمیر تقریباً 20 لاکھ ٹن سیب پیدا کرتا ہے، جس میں سے تقریباً دو تہائی برآمد کیا جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران، بازار جعلی اور غیر معیاری کیڑے مار ادویات سے بھر گئے تھے جس سے فصل کو نقصان پہنچا۔ پابندی کی وجہ سے کیڑے مار ادویات کے معیار کی جانچ ممکن نہیں تھی، 10,000 کروڑ روپے کی باغبانی کی صنعت کشمیر کی معیشت میں ایک بڑا حصہ دار ہے اور اس میں 700,000 خاندان یا 3.5 ملین افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہیں۔ کشمیر ہر سال تقریباً 20 لاکھ میٹرک ٹن سیب برآمد کرتا ہے۔ غیر معیاری کیڑے مار دوائیں باغات کو فصل کی بیماری سے متاثر کرتی ہیں جسے خارش کہتے ہیں، درختوں پر سیاہ داغوں کے ساتھ لٹکے سیب کی تصاویر گزشتہ سال سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔ یہ بالآخر سیب کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنا، پچھلے دو سال سے کاروبار 50 فی صد تک گر گیا، خارش کے علاوہ، باغات کو غیر متوقع برف باری سے ہونے والے نقصان سے اس خطے میں تقریباً 500 کروڑ کا نقصان ہوا، تیسرے لاک ڈاؤن میں معاشی بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت زیادہ مشہور سیاحت کا شعبہ جس میں ہاؤس بوٹ کے مالکان، ہوٹل مالکان، ٹرانسپورٹرز اور غیر رسمی معیشت سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ شامل ہیں، یہ خطہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مفلوج ہو گیا ہے اور مارچ میں وبائی امراض کی دوسری لہر کی زد میں آیا ہے۔ جموں و کشمیر میں روزانہ 3000 سے زیادہ کیسز اور اوسطاً 50 سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔ کشمیر کی معیشت ہر سال گر رہی ہے اور ہمیں کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی ہے، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے فورم کی طرف سے خطے میں لاک ڈاؤن کے اثرات پر ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں ہر کاروبار کو گزشتہ سال کمائی میں کم از کم 50 فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا، کاروباری برادری اگست 2019 کے بعد سے غیر معمولی پیش رفت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی، لاک ڈاؤن کے تازہ دور نے بہت سے خاندانوں کے لیے تباہی مچا دی ہے، جو روزانہ کی کمائی پر زندہ رہتے ہیں۔
معاشی بحران کے ساتھ ساتھ ہندؤوں نے ظلم کی انتہا کر دی ہے انیس سو نوے سے دو ہزا اکیس تک ایک لاکھ دس ہزار شہادتیں ہوئیں، پچاس لاکھ پچپن ہزار آٹھ سو کشمیری مسلمان زخمی ہوئے، سات ہزار دو سو ایک حراستی قتل ہو گئے، ایک لاکھ آٹھ ہزار بچے یتیم ہو گئے، ایک لاکھ نو ہزار پانچ سو اٹھارہ مکانات تباہ کر دیے گئے، تیس ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں، گیارہ ہزار ایک سو اٹھاسی عورتوں سے اجتماعی بے حرمتی کی گئی، دس ہزار سے زائد لوگ لاپتا ہیں ایک لاکھ تریسٹھ ہزار چھے سو چھیالیس لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم پاکستان تمام اختلافات کو ختم کرتے ہوئے، قومی یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام پارٹیوں کو اکٹھا کریں پوری دنیا میں کشمیری مسلمانوں کے سفیر بنیں، ہر ملک کے حکمرانوں سے ملیں، پوری دنیا میں رائے عامہ ہموار کریں تاکہ کشمیر کا مقدمہ جیتا جا سکے۔