دنیا بھر میں کورونا کی وباء ایک بار پھر شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ماہرین اور مبصرین پریشان ہیں کہ اس صورتِ حال پر کیا تبصرہ کیا جائے، کیا رائے دی جائے۔ اُن کے ذہنوں کا الجھنا حیرت انگیز نہیں۔ کورونا کی وباء کے حوالے جو کچھ بھی کہا جاتا رہا ہے وہ اتنے تضادات کا حامل ہے کہ کوئی اب تک اس معاملے کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ ایک طرف ترقی یافتہ ممالک یہ کہتے ہیں کہ اس وباء نے جینا حرام کردیا ہے اور پھر وہیں ایسے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں جو بہت حد تک امتیازی نوعیت کے ہیں۔ ترقی پزیر اور پس ماندہ ممالک پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ وہ کورونا کی روک تھام کے نام پر معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں محدود کریں۔ لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تحریک دی جارہی ہے۔ حکومتیں ہدایات پر ہدایات جاری کر رہی ہیں کہ کورونا کی وباء خطرناک اختیار کر رہی ہیں اور ایسے میں ماسک لگانا، ہاتھ دھونا اور دیگر بتائے ہوئے طریقے اختیار کرکے خرابی سے بچا جاسکتا ہے۔ ایسے میں برطانوی حکومت نے کورونا سے متعلق متعدد پابندیاں ختم کرکے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ وہاں ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ کورونا کی زد میں آئے ہوئے لوگوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کورونا پارٹیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے!
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مارچ 2022 تک دنیا بھر میں نصف آبادی کورونا کی زد میں آچکی ہوگی۔ یہ لوگ اومیکرون ویریئنٹ سے متاثر ہوں گے۔ دی لانسیٹ نامی جریدے نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک ایسے وقت کہ جب دنیا بھر میں کورونا کی وباء کے ختم ہونے کی امید کی جارہی ہے، ایسے اشارے ملے ہیں کہ یہ وباء فلو بن کر رہ جائے گی۔ امریکا میں ہلاکتیں بڑھی ہیں تاہم اس کی شکل وبائی نہیں۔ اب ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اومیکرون کے بعد بھی کورونا وائرس باقی رہے مگر وباء کی شکل میں نہیں بلکہ محض فلو کے طور پر۔ یعنی اس کی حیثیت وبائی نہیں رہے گی۔ دی لانسیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کی صورت میں معاملات کچھ بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ لوگوں کو ماسک کا استعمال بڑھا دینا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ ہاتھ دھونے اور سماجی فاصلہ رکھنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ ایس او پیز کی تعمیل سے کورونا کی وبائی حیثیت کمزور پڑے گی۔ اس وقت ماسک کا استعمال اگرچہ ناگزیر نوعیت کا ہے مگر اِس کے مطلوب نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔
ماہرین ایک اہم نکتہ یہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ جن لوگوں نے اب تک اومیکرون سے بچاؤ کے لیے بوسٹر ڈوز نہیں لگوائی اُنہیں اب یہ ڈوز لگوانے کی کچھ خاص ضرورت نہیں کیونکہ جب تک یہ ڈوز لگوائی جائے گی تب تک کورونا کی رواں لہر ختم ہوچکی ہوگی۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیوئیشن نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کے ویریئنٹس کمزور پڑتے جارہے ہیں۔
کورونا کی وباء سے بچاؤ کے لیے اب تک دنیا بھر میں جو کچھ کیا جاتا رہا ہے وہ مختلف النوع اثرات کا حامل رہا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی ایک طے شدہ ایس او پی نہیں اپنایا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔ ترقی پزیر ممالک بھی بہت سے معاملات میں اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کام کرتے آئے ہیں۔ کورونا کی وباء نے اگر ستم ڈھایا ہے تو پس ماندہ ممالک پر۔ اُن کی معیشتیں تباہ ہوگئی ہیں۔ لاک ڈاؤن سمیت تمام ایس او پیز کی تعمیل نے پس ماندہ ممالک کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کورونا ایس او پیز نے پاکستان جیسے ممالک کا حال بُرا کردیا ہے۔ معیشت کا پہلے ہی بُرا حال تھا۔ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ایک پاکستان پر کیا موقوف ہے، پورے ایشیا کی مجموعی کیفیت ایسی ہے۔ جنوبی ایشیا خاص طور پر خسارے سے دوچار رہا ہے۔ کورونا کی وباء کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ کیا گیا اُس نے مزید خرابیاں پیدا کردیں۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے۔ بہت سوں کو شہروں میں روزگار ختم ہونے پر آبائی (دیہی) علاقوں کا رخ کرنا پڑا۔ افلاس کی سطح بلند ہوئی۔ مہنگائی نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا۔ یہ کیفیت اب تک برقرار ہے۔ معیشتی سرگرمیاں بحال تو ہوئیں مگر جو خسارہ ہوچکا ہے اُس کے ازالے کی کوئی صورت نکل نہیں پارہی۔
پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں کورونا کی وباء کے حوالے سے عوام کا ردِعمل ملا جلا رہا ہے۔ خطے کا عام آدمی اب تک الجھا ہوا ہے کیونکہ کورونا کی روک تھام سے متعلق کیے جانے والے اقدامات نے عوام کو تحفظات کا حامل ہونے پر مجبور کیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں معاشی فضاء مجموعی طور پر پہلے ہی مکدّر تھی۔ کورونا کی وباء نے آکر ستم بالائے ستم والا معاملہ کیا۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں افلاس زدہ افراد کی تعداد میں نمایاں حد تک اضافہ ہوا۔ کورونا کی وباء سے متعلق ماہرین جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بہت حد تک حوصلہ افزاء ہے کیونکہ دو سال کے دوران دنیا اس وباء سے تنگ آچکی ہے۔ خود ماہرین بھی سمجھ نہیں پارہے کہ اب اس وباء سے متعلق مزید کیا بیان کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے اس وباء کے پیدا کردہ حالات کو اپنے مفاد میں بروئے کار لانے کے حوالے سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اس وباء کی کوکھ سے پیدا ہونے والے فوائد اب تک صرف ترقی یافتہ دنیا نے بٹورے ہیں۔ پس ماندہ ممالک سراسر خسارے میں رہے ہیں۔
اومیکرون کے حوالے سے شدید تشویش ظاہر کی جارہی تھی مگر خیر سے اب تک ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی جسے بہت خطرناک قرار دیا جاسکے۔ پاکستان میں تو حالات بہت حد تک قابو میں ہیں۔ بھارت میں حکومت اب تک کورونا کی وباء کے حوالے سے بدحواسی پھیلانے والے بیانات جاری کر رہی ہے اور میڈیا کے ذریعے بھی یہ تاثر مضبوط بنایا جارہا ہے کہ ملک شدید خطرے کی لپیٹ میں ہے اور ہزاروں جانیں بہت تیزی سے ضایع ہوسکتی ہیں۔ بھارتی زبانوں کے اخبارات کی رپورٹنگ انتہائی سنسنی خیز ہے اور اُن اخبارات کو پڑھنے سے ایسا لگتا ہے جیسے اومیکرون کی لہر نہیں آئی بلکہ کسی بڑی طاقت نے بھرپور حملہ کردیا ہے۔ کیا واقعی اِتنی سنسنی پھیلانے کی ضرورت اور گنجائش ہے؟ بظاہر کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش مگر پھر بھی ایسا کیا جارہا ہے۔
عالمی ادارے کورونا کی وباء کی روک تھام کے حوالے سے بہت پیچھے رہے ہیں۔ سبھی کچھ بڑی طاقتوں کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے اس وباء کی مدد سے اپنے بہت سے اُلّو سیدھے کرلیے ہیں۔ کورونا کی پہلی لہر کے دوران امریکا اور یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہوئیں مگر یہ سب ہلاکتیں واقعی صرف کورونا کے باعث ہوئی تھیں یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ بہت سے معاملات پر اب تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ کورونا وائرس ایک حقیقت سہی مگر اُس کے نام پر جو کچھ بھی ہوتا رہا ہے وہ سب کا سب فی الواقع حقیقت نہیں۔
بہ شکریہ: روزنامہ ’’نو بھارت‘‘ نئی دہلی، 29 جنوری 2022)