عالم اسلام کے شاندار ماضی کے مقابلے میں ہم عصر عرب حکمرانوں کی گزشتہ سو سال کی تاریخ ان کی باہمی سازشوں، اسلام کی دشمن صلیبی طاقتوں کے مکرو فریب کے جال میں پھنس کر اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لالچ میں اپنے ہی معصوم مسلمان بھائیوں، بزرگوں، عورتوں اور بچوں کے وحشیانہ قتل عام سے آنکھیں چرانے، بیت المقدس اور مسجد اقصٰی پر صہیونیوں کے قبضے میں مدد دینے، کیمپ ڈیوڈ کا تاریخ کا بدنام ترین معاہدہ کرکے اسلام اور فلسطین کی پیٹھ میں چْھرا کھونپنے جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اِس طرح کے روح فرساواقعات عرب حکمرانوں کی صہیونیت اور امریکا سے ملی بھگت کا نتیجہ ہیں۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم عرب حکمرانوں کے قرآن و حدیث کے واضح احکامات کے باوجود نادانی اور غفلت میں مبتلا ہونے پر سخت شاکی و مضطرب رہے ہیں۔ اس وقت ہم ڈاکٹر صاحب کی ایک تقریر کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ اپنے اس خطاب میں انہوں نے عرب حکمرانوں کے طرز عمل کا دلسوزی سے جائزہ لیا ہے۔ ایک مستند حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہؐ نے ان عرب ممالک (بلا استثناء) کے لیے سخت ترین وعید بیان فرمائی ہے کہ ’’عربوں کے لیے ہلاکت ہے‘‘۔ حدیث کے الفاظ میں ’’ویل للعرب‘‘ کا جملہ استعمال کرتے ہوہے فرمایا کہ دور ہوجاؤ اے اہل عرب اس شر سے کہ جو بہت قریب ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ وہ عیاشیوں کی وجہ سے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ اس وقت دبئی کے اندر مغربی کلچر پوری طرح جڑ پکڑ چکا ہے۔ وہاں جاکر کسی اسلامی ملک کے آثار ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے۔ برطانیہ، امریکا اور ایک عرب ملک میں تمیزکرنا مشکل ہے۔ اب سعودی عرب بھی اسی راستے پر گامزن ہے عرب امارات میں پتھروں کی پوجا کرنے کے لیے مندر بنائے جانے کی اجازت دی گئی ہے اس مقصد کے لیے نہ صرف زمین بلکہ مالی تعاون بھی پیش کیا گیا ہے اسی طرح سعودی عرب میں جوئے خانے اور سینما گھر کھلے برسات کے مینڈ کوں کی طرح نکل آئے ہیں۔ سعودی ائرلائن میں اب سعودی نوجوان لڑکیاں ائر ہوسٹس کے طور پر بھرتی ہو رہی ہیں۔ عرب حکمران اسلامی قدروں کے مقابل مغربی فحش کلچرکو متعارف کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد فرماتے ہیں کہ حدیث کے مطابق پہلے کسی عرب ملک میں خلافت قائم ہوگی جو امام مہدیؑ کی زیر قیادت ہوگی۔ اس کے تحت پاکستان اور افغانستان جیسے مشرقی ممالک سے فوجیں جائینگی۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول پھر آخری جنگ ہوگی جس میں کشت وخون بہت ہوگا۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ’’اگر ایک باپ کے 100 بیٹے ہوئے تو 99 ہلاک ہوں گے فقط ایک بچے گا‘‘۔ آخری فتح اسلام کی ہوگی اور حکومت الٰہیہ قائم ہوگی اور ساری دنیا پر اسلام کا ہی غلبہ ہوگا اور یوں اسلامی نظام قائم ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اہل عرب عربی زبان سے آگاہی کے باوجود قرآن وحدیث کے احکامات سے عملاً گریزاں ہیں۔ سعودی عرب کی نکیل مغربی ممالک کے ہاتھ میں ہے۔ مغرب اس وقت پوری طرح اسلام کی بیخ کنی پر تْلا ہوا ہے۔ اسے بالکل گوارا نہیں کہ دنیا میں کہیں اسلامی نظام اپنی صحیح شکل میں نافذ ہو۔ اس کا مقصد ہے کہ دنیا میں مسلمان بے شک نمازیں پڑھیں، روزے بھی رکھیں اور حج بھی کریں مگر اسے گوارا نہیں کہ کسی اسلامی ملک میں اسلام کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور معاشرتی نظام قائم ہو اور وہ پھولے پھلے۔ اسی لیے تو عرب ممالک میں امریکا کے کہنے پر سعودی نظام مادر پدر آزاد مغربی کلچر روز بروز جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ اسی طرح جب بھارت نے اقوام متحدہ کی مسلمہ قراردادوں کو روندتے ہوئے کشمیرکو ہڑپ کرلیا تو پاکستان کے احتجاج کے باوجود کسی عرب ملک نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور ان عرب ممالک نے بھارت کے اس اقدام کو اس کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر لاکھوں مسلمانوں اور لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی۔
آج کشمیر، برما، فلسطین اور بھارت میں آئے روز ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے اور انہیں اپنے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے مگر صد افسوس اس سب ظلم وستم کے باوجود عرب ممالک اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل اور بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ مزید ستم یہ بھی کہ بھارت میں تبلیغ اسلام پر پابندی لگادی گئی ہے اور اسلامی ممالک خاموش ہیں۔ عرب ممالک کو بھارت کا یہ اسلام اور مسلمان دشمن اقدام نظر نہیں آتا۔ تصویر کا ایک اور رخ بھی ملاحظہ ہو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے اسرائیل اور بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھاکر محلاتی سازشوں کو پنپنے کی دعوت دے ڈالی ہے۔
ہمارے دین میں مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے اور اخوت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو‘‘ (آل عمران: 130)۔ اسی طرح مسلم کی حدیث ہے ’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے‘‘۔ اسی ضمن میں رسول اللہؐ نے مسلمانوں کے مابین تعلقات اور محبت کو ایک جسم کے اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ’’ایمان والوں کی آپس میں محبت، رحم دلی اور شفقت انسانی جسم جیسی ہے اگر جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتو پورا جسم متاثر ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری) ان احادیث کی روشنی میں سعودی اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ فلسطین کے مسلمانوں کو بے رحم اسرائیل حکومت کے رحم وکرم پر نہ چھوڑیں اور پھر اسی طرح کشمیر اور برما اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کو کفر اور طاغوت کے پنجہ سے آزاد کرانے کے لیے ان کی مددکریں۔ حیرانگی ہے کہ اہل عرب اور ان کے ’’زعماء‘‘ قرآن وحدیث کے ان احکامات کے مفاہیم کو جانتے ہوئے بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے اور ظلم و درندگی کے سرخیل کے ظالمانہ اقدامات کی درپردہ حمایت کرتے ہوئے اس کے ظلم و درندگی سے آنکھیں چرا رہے ہیں اگر اس موقع پر یہ کہا جائے کہ شیطان اور اس کے گماشتوں نے ان مسلمان ’’راہنماؤں‘‘ کے قلوب اور کانوں پر پردہ ڈال دیا ہے تویہ حق ہو گا۔ قرآن اس کی گواہی دیتا ہے۔ او آئی سی اس وقت ایک مردہ گھوڑے کی شکل میں ہے اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔ بہرحال اب حالات بتارہے ہیں کہ نبی اکرمؐ کی پیش گوئی کے مطابق ایک خطرناک ترین عالمی جنگ ’’ملحمۃ الکبری‘‘ ناگزیر ہے جس کے نتیجے میں تمام دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا۔ اسرائیل جسے امریکا اور برطانیہ کی حمایت حاصل ہے، دنیا کے نقشہ سے نیست ونابود ہوگا۔ پھر مہدیؑ کی سربراہی میں اسلامی خلافت کا نظام یعنی خلافت علی منہاج انبوہ قائم ہوگی۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کو قرآن وحدیث کے مفاہیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے ہی سے ان کی آخرت میں نجات ممکن ہوگی۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقل سلیم عطا فرمائے تاکہ ان کے اندر دوست ودشمن میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو کیونکہ اسی میں نہ صرف اْن کی بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی خیرخواہی مضمر ہے اور یہی قرآن وحدیث کا پیغام ہے۔