وزیراعظم عمران خان چین کے چار روزہ اہم سرکاری دورے پر بیجنگ روانہ ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم کے دفتر سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری، مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود اور معاون خصوصی برائے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) خالد منصور بھی ہیں۔ وزیراعظم کو چین کی جانب سے بیجنگ میں منعقد ہونے والی سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس تقریب میں دیگرعالمی رہنمائوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ کھیلوں کا سب سے بڑا عالمی میلہ عالمی سیاست اور سفارت کاری کا مرکز بھی ہے۔ اس مرتبہ بیجنگ میں منعقد ہونے والے سرمائی اولمپکس کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ امریکا نے بیجنگ اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ واشنگٹن سے وہائٹ ہائوس نے اعلان کیا تھا کہ چین میں ’’انسانی حقوق کے خلاف مظالم‘‘ کی وجہ سے امریکی حکومت کے اہلکار بیجنگ کے سرمائی اولمپکس 2022ء کا سفارتی بائیکاٹ کریں گے۔ وہائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے امریکی اقدام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ سنکیانگ میں چین کی جانب سے جاری نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے پیش نظر 2022ء کے سرمائی اولمپکس میں کوئی سفارتی و سرکاری نمائندہ نہیں بھیجے گی۔ البتہ کھلاڑیوں کی شرکت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ سابقہ سرد جنگ کے دور میں بھی ایک مرتبہ امریکا سوویت یونین میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں کے خلاف مہم چلا چکا ہے۔ اسی وجہ سے اب کھیلوں کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریبات اور میلے بھی سیاسی اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورئہ چین میں عالمی کھیلوں کی افتتاحی تقریبات میں شرکت اور، چینی صدر شی جن پنگ، وزیراعظم لی کی چیانگ سے ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم کے دورئہ چین سے قبل مشاورت کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ وزیراعظم عمران خان تقریباً دو سال بعد چین کا دورہ کررہے ہیں۔ یہ دورہ ہر طرح کے حالات میں دفاعی تعاون کے لیے دونوں ممالک کی شراکت داری کو مزید مضبوط کرے گا۔ یہ دورہ اس تناظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے کہ بعض حلقوں نے اس تاثر کو گہرا کردیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر کام سست روی کا شکار ہے۔ اس دورے سے قبل خاص طور پر چینی ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا اور ان سے عالمی سیاسی امور پر خیالات معلوم کیے۔ وزیراعظم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے امریکی دبائو موجود ہے۔ انہوں نے چینی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے دوہرے امریکی طرزِ عمل کی طرف اشارہ کیا جو کشمیر اور سنکیانگ کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ امریکا، یورپ اور مغربی طاقتیں سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں تو آواز اٹھاتی ہیں لیکن کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے آنکھیں بند رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا سمیت مغربی طاقتوں کا چین سے تعلقات میں کمی کے لیے پاکستان پر دبائو ڈالنا ناانصافی ہے۔ اس سے قبل بھی عالمی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم اس امر کی بھی تصدیق کرچکے ہیں کہ امریکا اور چین کی سرد جنگ کے حوالے سے دبائو موجود ہے لیکن ان کی حکومت عالمی کشمکش میں غیر جانبدار رہے گی۔ انہوں نے امریکا اور چین سمیت تمام طاقتوں سے منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر تعلقات برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بدلتا عالمی منظرنامہ دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد بیس سالہ عالمی جنگ میں امریکا اور ناٹو کی بدترین شکست کے بعد وجود میں آیا ہے۔ اس منظرنامے کا بنیادی نکتہ چین کا سیاسی و اقتصادی گھیرائو ہے جو مستقبل میںکسی بڑی جنگ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ عمران خان کے دعوئوں کے باوجود پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کی تاریخ امریکی غلامی پر مشتمل ہے۔ ماضی قریب میں ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے احکامات کی تابعداری کو دیکھیں تو شکوک و شبہات بڑھ جاتے ہیں۔