اسلام آباد: سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا ہے کہ اختیارات میں تواز ن آئینی ڈھانچے کی بنیاد ہے اختیارات میں توازن ریاستی اداروں کے دائرہ اختیار کو یقینی بناتا ہے۔
قانون کا پیشہ میرے لئے محض روزگار کا ذریعہ نہیں بلکہ سب کچھ تھامیں نے اپنی قابلیت اور کام کے ذریعے چیلنجر کا سامنا کیا عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد کورونا شروع ہونے سے مشکلات کا سامنا رہا میرے دور میں 36680مقدمات دائر ہوئے جس میں سے 27426 مقدمات نمٹائے گئے بطور چیف جسٹس 4342مقدمات کی سماعت اور فیصلے کئے کورونا وبا کے باوجود انصاف کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنایا میری دعا ہے کہ ہر پاکستانی کورونا وبا سے محفوظ رہے عدالتی انتظامی معاملات میں ساتھی ججز کے تعاون پر مشکور ہوںا۔
انہوں نے کہاکہ کرونا وبا کے مشکل حالات کے باوجود عدالتی امور سر انجام دیئے کرونا وبا کے دوران کراسسز مینجمنٹ کمیٹی بنائی جیلوں اور قیدیوں کی حالت زار کی بہتری کیلئے اقدامات کیے ، جسٹس گلزار کا کہنا تھاکہ میں نے ذاتی حیثیت سے اسلام آباد ماڈل جیل کا دورہ کیا، حکام کو ہدایات دیں کہ جیل کو محفوظ بنایا جائے کری روڈ اسلام آباد سپریم کورٹ ایمپلائز کالونی کے قیام کیلئے 28 ایکڑ زمین حاصل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں سپریم کورٹ کی اضافی عمارت تعمیر کرنے کیلئے پانچ اشاریہ چار ایکڑ زمین حاصل کی گئی اور پہلی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کرکے نئی تاریخ رقم کی اور پشاور ہائی کورٹ میں مزید دس جج صاحبان کی تعیناتیوں کیلئے سفارشات بھیجیں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میری تمام تر پیشہ ورانہ کامیابیوں کا سہرا میرے والد محمد نور ایڈووکیٹ کو جاتا ہے جب میں نے وکالت کا شروع کیا گیا 2002 سے شعبے کو آج خیر آباد کہہ رہا ہوں، میںسندھ ہائی کورٹ کا جج بنا تو اپنا کام ایمانداری سے کیا، میں نومبر 2011 میں سپریم کورٹ کا جج بنا، دسمبر 2019 میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت ملی ،میں نے بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کئے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی، جیسے ہی مجھ کو چیف جسٹس کی ذمہ داری ملی اس وقت کووڈ کا معاملہ شروع ہو گیا مجھے کام کیساتھ ساتھ ججز اور اسٹاف کی صحت کا بھی خیال رکھنا تھا، میں نے کراچی لاہور پشاور اور کوئٹہ رجسٹری سے کیسز کی ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت شروع کرائی۔
انہوں نے اپنی تقریر ک آخر میں تمام سٹاف اہلخانہ اور ساتھی ججو ں سمیت دیگر کا شکریہ ادا کیا۔چیف جسٹس گلزار احمد کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میںسپریم کورٹ کے تمام ججز، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز اور بار کے نمائندے شریک ہوئے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی بالادستی کے لیے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا، بار اور بنچ میں ایسی شخصیات تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ ان باہمت ججز میں شامل ہیں، جسٹس مقبول باقر بھی ان دلیر ججز کا حصہ ہیں جو ابھی ریٹائر نہیں ہوئے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007 میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی، جسٹس گلزار احمد کے دور میں عدلیہ نے کئی اتار چڑھا ﺅدیکھے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران عدالت ایک دن بھی بند نہیں ہوئی، پھر بھی مقدمات کا بوجھ 53 ہزار سے بڑھ گیا۔اس مو قع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد کی بطور جج تقرری میں سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی،اسلام آباد، لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کے اصول پامال کیے گئے، باروکلا برادری کی بہبود سے متعلق معاملات میں چیف جسٹس گلزار احمد نے سرپرستی کی ہے ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔
انہو ں نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے مقامی حکومتوں کی تحلیل کیخلاف تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے ، سات ماہ گزرنے کے باوجود مقامی حکومتوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور اس بارئے پنجاب حکومت کے رویہ کیخلاف متاثرہ فریقین کی درخواستوں کو شنوائی نہیں ملی ، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا،وکلا تنظیموں نے آئین اور قانون کی بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، میرٹ کے برعکس تعیناتیوں کے باعث عدلیہ کو سنگین بحران کا سامنا ہے، جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت سے باقی نمائندوں کی رائے غیر موثر کردی گئی ہے۔
انہو ں نے کہا کہ اعلی عدالتوں کے فیصلوں اور ان پر عملدرآمد کے معیار یکساں ہوں گے تو کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا،سپریم کورٹ میں ججز کی زیادہ تر تعیناتیاں ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ہوئیں، وکلا تنظیموں نے آرٹیکل 209 کے تحت جوڈیشل کمیشن کے اختیارات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ریفرنس سے وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل نے بھی خطاب کیا ۔