جماعت اسلامی کے لیے آخری آپشن؟

778

پی ٹی آئی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے جب کہ پی پی پی اور پی ڈی ایم والے اپنی ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل کرنے کے لیے مارچ 2022ء کے دوران اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ پی پی پی اور پی ڈی ایم اگر متحد ہو کر لانگ مارچ کرنے پر اتفاق نہ بھی کرسکے تب بھی یہ الگ الگ لانگ مارچ کا پروگرام دے کر کامیابی پیش رفت کر جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اب تک کی سیاسی تاریخ سب سے ناکام حکومت پی ٹی آئی کی ثابت ہوئی جب کہ نااہل اپوزیشن بھی آج کی ثابت ہورہی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی نے حکومت کو اس قدر ناکام اور ناکارہ کردیا ہے کہ اس کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لیے اب کچھ باقی نہیں بچا۔ وزیراعظم عوام کا اعتماد مکمل طور پر کھوچکے ہیں، لہٰذا گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دینے کی ضرورت ہے، جب کہ پی پی پی اور پی ڈی ایم کی قیادت پی ٹی آئی کی داخلی کمزوریوں سے بھی خوب آگاہ ہیں۔ 2022ء بلدیاتی الیکشن اور 2023ء جنرل الیکشن کا سال ہے اس لیے اپوزیشن کی مذکورہ جماعتوں نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ درست وقت پر کیا ہے۔ عوام بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے تنگ اور بیزار ہیں، حکومت غیر ملکی ایجنڈے پر عمل درآمد کی وجہ سے بیمار ہے جب کہ اس دوران اپوزیشن کو حکومت پر وار کرنے کا بہترین موقع مل گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال میں پی پی پی اور پی ڈی ایم کی قیادت پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے اور خود فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائیں گے جب کہ اسٹیبلشمنٹ بھی سنجیدگی کے ساتھ یہ محسوس کررہی ہے کہ جیسے پی ٹی آئی کی حکومت ان پر بوجھ بن گئی ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کو جہاں وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم سے مایوسی ہوئی ہے وہیں پر ان کو اپنی بدنامی پر بھی تشویش ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو جس اذیت اور مسائل کا سامنا ہے اس میں انہیں بھی ذمے دار قرار دیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے اعتماد اور ملک کے وسیع تر مفاد میں اسلام آباد کی جانب بڑھنے والے ممکنہ لانگ مارچ کو اشارہ دے چکی ہے کہ اگر کچھ کرسکتے ہو تو کرو بعد میں جو کچھ کرنا ہوگا وہ ہم کردیں گے۔
اس طرح کی صورت حال میں جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہوگی، یہ بہت اہم سوال ہے، گزشتہ دنوں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ کی زیر صدارت جماعت اسلامی کی سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں یقینا اہم سیاسی فیصلے کیے گئے ہوں گے تاہم ہمارا خیال ہے کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے اس طرح کے خیالات اور بیانات کہ جن میں پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی تینوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ناکام کہا جاتا رہا ہے اور کسی بھی اتحاد کا حصہ نہ بننے کا جو فیصلہ کیا جاچکا ہے اس کے بعد جماعت اسلامی کے لیے آنے والے ممکنہ منظرنامے میں اپنے لیے کوئی موزوں یا موثر جگہ لینا کافی مشکل ہوگا کیوں کہ اگر پی پی پی اور پی ڈی ایم کا مجوزہ لانگ مارچ کامیاب ہوجاتا ہے اور جس کے زیادہ امکانات نہیں تو اس کے بعد جماعت اسلامی کے پاس کون سے ایشوز باقی رہ جائیں گے کہ جن کو ہدف قرار دے کر جماعت اسلامی آگے بڑھے گی؟ اس اہم سوال پر جماعت اسلامی کی قیادت اور شوریٰ کو غور کرنا چاہیے۔
ہمارے نزدیک ملک کا سب سے اہم ایشو مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی اور الحاق پاکستان کا ہے۔ پی ٹی آئی، پی پی پی اور پی ڈی ایم اس ایشو کو جان بوجھ کر ثانوی حیثیت دے رہی ہیں۔ ان تینوں جماعتوں یا اتحاد کو اپنا اپنا اقتدار بچانے یا یہ کہ اقتدار تک پہنچنے کی فکر ہے۔ مسئلہ کشمیر 74 برس سے سرد خانے میں ہے اور اب اسے ایک گہری سازش کے تحت مردہ خانے میں لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کی سازش میں پی پی پی اور پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی قیادت برابر کی ملوث ہیں جو غیر اعلانیہ اور غیر محسوس طریقے سے رفتہ رفتہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے اس کی مستقل غلامی پر سمجھوتا کررہی ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب بھارت کی مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کی متنازع ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا تو پاکستان کے اندر سے
حکومت اور اپوزیشن کا وہ ردعمل نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا، حالاں کہ مقبوضہ کشمیر جسے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا اور وزیراعظم عمران خان نے اسے پاکستان کے نقشے میں شامل کردیا تو اس کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی 7 لاکھ فوج کا موجود رہنا انتہائی تشویشناک اور شرمناک ہے۔ مقبوضہ وادی میں کئی برسوں سے لاک ڈائون، کریک ڈائون اور مختلف آپریشنز جاری ہیں، ایک کروڑ کشمیری مسلمان ہر روز اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھاتے اور بیٹیوں کی آبروریزی کی خبریں سنتے اور دیکھتے ہیں۔
ہمارے تجزیے کے مطابق جماعت اسلامی کے لیے لاسٹ آپشن یہی ہے کہ ملکی سیاست اور قیادت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے کے لیے ماہ رمضان کے بعد مئی یا جون میں 10 لاکھ مسلمانوں کے ساتھ کنٹرول لائن عبور کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ ایسا اعلان جہاں پی ٹی آئی حکومت کو اوندھا منہ گرادے گی وہیں پر پی پی پی اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی بھی ہوا نکل جائے گی جب کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ پیغام مل جائے گا کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا آپ کی ذمے داری تھی جو انہوں نے پوری نہیں کی تو اس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ جماعت اسلامی کا کارکن نہتا ہو کر بھی پاکستان کی حفاظت اور استحکام کے لیے سری نگر کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتا ہے۔ اگر کنٹرول لائن عبور کرنے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو پاکستان کا سارا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجائے گا۔ 2022ء مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور تکمیل پاکستان کا سال بن جائے گا جس کا تمام تر کریڈٹ پاکستان کے عوام اور جماعت اسلامی کو جائے گا۔