بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، آئی ایم ایف کی مداخلت اور منی بجٹ کی وجہ سے غریب عوام کی چیخیں سنائی دینے لگیں۔ اس تکلیف کو کوئی غریب ہی محسوس کرسکتا ہے۔ سیاستدانوں کی خاموشی کے طلسم میں پوری قوت کے ساتھ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ آواز لوگ پچھلے کئی سال سے سننا چاہتے تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے انقلابی قائد 100+1=101دھرنے دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان شاید بنی گالہ کے محلات میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں انہیں یہ اندازہ نہیں ہے 100+1=101 دھرنوں کا اعلان ہوا ہے جو ان کی حکومت گرانے کے لیے کافی ہوگا۔ میں عمران خان کو تاریخ کے جھرونکوں میں لے کر چلتا ہوں جب صرف ایک دھرنا ہوا تھا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے لیے کافی تھا۔ 24جون 1996 کا واقعہ ہے، راولپنڈی کے گلی کوچوں میں قاضی حسین احمد کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی تھی کہ اچانک قاضی حسین احمد لیاقت باغ کے قریب آریہ محلہ سے نمودار ہوئے تو پولیس فورس اْن کو گرفتار کرنے کے لیے حرکت میں آگئی لیکن مری روڈ پر موجود ہزاروں پْرجوش کارکنوں نے ان کو اپنے حصار میں لے لیا۔ پولیس کے ساتھ کھینچا تانی میں قاضی حسین احمد کے سر سے ٹوپی گر گئی، پہلی بار کسی نے قاضی حسین احمد کو ٹوپی کے بغیر دیکھا، کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر محفوظ کر لیا، بہرحال اْس وقت جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنوں کے سامنے پولیس بے بس نظر آئی اور وہ قاضی حسین احمد کو پولیس سے چھین کر لے گئے۔ قاضی حسین احمد تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اس روز قاضی حسین احمد نے اسلام آباد میں بینظیر حکومت کی کرپشن کے خلاف پہلا دھرنا دیا تو ہر کوئی سوال کررہاتھا یہ دھرنا کیا ہوتا ہے؟ جس کے نتیجے میں بینظیر کی حکومت ختم ہو گئی۔
اب میں آپ کو لیکر چلتا ہوں اس 100+1=101 دھرنوں کی وجوہات کی طرف جس میں آئی ایم ایف کے کہنے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 2021 کی منظوری اور منی بجٹ کے ذریعے مہنگائی میں اضافہ ہے۔ 22 نومبر 2021 کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا۔ اس سے پہلے یہ معاہدہ اپریل 2021 میں تعطل کا شکار ہوگیا تھا اور اسے ایک بار پھر زیرِ بحث لایا گیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو ایک ارب ڈالرز آئی ایم ایف فنڈ کے تحت دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس فنڈ کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان ان تمام پالیسیوں اور اصلاحات کی تکمیل کرے گا جو چھے ارب ڈالرز کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی یعنی ای ایف ایف کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان امینڈمنٹ ایکٹ 2021 کا منظور ہونا شامل ہے، جس کے ذریعے موجودہ اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956 میں اسمبلی کے ذریعے تبدیلیاں لائی گئیں، ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنا، اور بجلی کی قیمتوں میں حکومتی ڈیوٹی کو زیادہ کرنا شامل ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کے اس قرضے کا حساب بھی دینا ہوگا جو پاکستان کو اپریل 2020 میں کووڈ وبا سے بچاؤ کے لیے دیا گیا تھا۔ حکومتی ارکان کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان امینڈمنٹ ایکٹ 2021 بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق چلایا جاسکے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 17 فی صد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے جنہیں پورا کرکے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے۔ 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ حکومت نے وفاقی بجٹ میں 5800 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ رکھا تھا تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے اس سال ملک میں ٹیکس آمدنی 6200 ارب روپے ہونی چاہیے، تحقیقی اداروں کی ریسرچ کے مطابق منی بجٹ کے بعد افراط زر میں اعشاریہ پانچ فی صد سے ایک فی صد تک اضافہ ہوگا، تاہم ان کی ذاتی رائے میں یہ اضافہ اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
آج پاکستان بری طرح قرض اور سود کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے، ماہرین کے مطابق اگر پاکستان کی معیشت بہتر نہیں ہوتی تو دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ستمبر 2021 تک پاکستان نے 50.5 ٹریلین روپے قرض کی مد میں ادا کرنے تھے۔ تحریک انصاف کے 39 مہینوں میں 20.7 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا جو 70 فی صد بنتا ہے۔ اور سود کی ادائیگی 7.5 ٹریلین روپے ادا کیے۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2008 میں جب پی پی پی نے اقتدار سنبھالا اس وقت واجب الادا غیر ملکی قرضہ 45 ارب ڈالر تھا۔ پی پی پی حکومت کے خاتمے تک یہ قرضہ 61 ارب ڈالر تک جا پہنچا اور پانچ سال بعد نواز لیگ کی حکومت کے اختتام کے وقت جون 2018 میں یہ حجم 95 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ جون 2018 میں غیر ملکی قرضے کا جو حجم 95 ارب ڈالر تھا وہ ستمبر 2021 کے آخری ہفتے تک 127 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ 1947 سے لے کر 2008 تک واجب الادا قرضہ صرف چھے ہزار ارب تھا جو صرف 13 برسوں میں 50.50 ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ واجب لادا قرضہ 2008 میں جو چھے ہزار ارب تھا وہ 10 برسوں میں 30 ہزار ارب تک جا پہنچا، تحریک انصاف کی حکومت کے صرف 39 مہینوں میں یعنی ستمبر 2021 تک 20.5 ہزار ارب کا اضافہ ہوا جو 50.50 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔
سراج الحق نے کہا آئی ایم ایف، مہنگائی بیروزگاری سے بچنے اور ملکی ترقی ممکن تھی اور ہے اگر پاکستان تحریک انصاف چند اقدامات کرتیں جس میں حکومتی اخراجات میں کمی کی جاتی، انڈسٹری کے فرغ کے لیے ٹیکس فری زونز بنائے جاتے، بجلی گیس اور کوئلہ میں اضافہ کے ساتھ سستی مہیا کی جاتی تاکہ برآمدات میں اضافہ ہوتا، غیر ضروری (تعیشات) اشیاء کی درآمدات پر پاپندی لگائی جاتی، کرپشن کو ختم کیا جاتا جس سے کسٹم ڈیوٹیز، انکم اور سیلز ٹیکس کی مد میں تین سو فی صد تک اضافہ کیا جا سکتا تھا، نیب میں چلنے والے تمام مقدمات کے ملزمان سے پیسہ وصول کیا جاتا، زراعت کے اندر جدت لائی جاتی جس سے ہم خود کفیل ہونے کے ساتھ برآمدات میں اضافہ کرتے، آبپاشی کے جدید ذرائع استعمال کرتے، پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ارسا کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فِٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے صرف 13.7 ملین ایکڑ فِٹ پانی بچایا جا سکتا ہے۔
میری وزیراعظم عمران خاں کے لیے ایک تجویز ہے کہ 100 دھرنوں میں سراج الحق کے مطالبات مان لیں کیونکہ اگر 100 دھرنوں کے بعد اسلام آباد میں آخری دھرنا 101 ہوا تو انہی اپنی حکومت بچانا مشکل ہو جائے گی۔