ملکی معاشی نظام حکومت کے بجائے عالمی ساہوکار اداروں کے شکنجے میں ہے

238

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی کی متعدد وجوہات ہیں جن میں بین الاقوامی اور اندرون ملک حکومتی اداروں کا اپنی ذمے داریاں ادا نہ کر سکنا بھی ہے‘ ملک کا معاشی نظام عالمی ساہوکار اداروں کے شکنجے میں ہے‘ کوووڈ 19 سے پوری دنیا کی معیشت سکڑ گئی ہے‘ ڈالر تیزی سے مہنگا ہو رہا ہے‘ درآمدی اشیا پر ٹیکسز بہت بڑھ گئے ہیں‘ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے‘ حکمران طبقے کی من مانی بھی مہنگائی کی بنیادی وجہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکر اللہ مجاہد، ممتاز تجزیہ نگار سلمان عابد اور پاکستان ریلوے ایمپلائز پریم یونین کے چیئرمین ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟‘‘ ذکر اللہ مجاہد نے کہا کہ ملک کا معاشی نظام مکمل طور پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے شکنجے میں ہے‘ ہم اس حد تک ان کے تابع ہو چکے ہیں کہ ہمارے بجلی اور پیٹرول کے نرخ بھی یہی ساہو کار ادارے طے کرتے ہیں‘ ان حالات میں مہنگائی میں کمی کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے‘ دوسری جانب ہمارے حکمران وسائل غریب اور کم آمدنی والے لوگوں کی طرف منتقل کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں اور غیر ترقیاتی اخراجات پر صرف کر رہے ہیں‘ وزیروں کی فوج ظفر موج قومی وسائل پر پالی جا رہی ہے جب سرکاری سطح پر بچت نہیں ہو گی تو مہنگائی میں اضافہ لازمی امر ہے‘ اسی طرح نظام کو درست کرنا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں‘ ملک میں گندم اور گنے کی وافر پیداوار ہونے کے باوجود چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا اس کے سوا کیا جواز ہے کہ حکمرانوں کے دائیں بائیں بیٹھے مافیاز کے کارندے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے ذریعے غریب لوگوں کا خون نچوڑنے میں مصروف ہیں‘ عام آدمی کا کوئی والی وارث نہیں اس لیے وہ مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ سلمان عابد نے بتایا کہ مہنگائی کی وجوہات میں عالمی کساد بازاری اور مقامی حالات دونوں کا دخل ہے‘ پوری دنیا معاشی بحران اور افراط زر کا شکار ہے‘ کووڈ۔ 19 سے بھی عالمی معیشت خاصی سکڑ گئی ہے‘ ان عالمی حالات کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں‘ آئی ایم ایف کا دبائو بھی پاکستان پر بہت زیادہ ہے پاکستان امریکا اور چین سے تعلقات کی کشمکش کے سبب بہت سی پابندیوں میں جکڑا جا رہا ہے‘ اندرون ملک حکومت کا نظام قطعی غیر موثر ہو چکا ہے‘ حکومتی اہل کار منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کے سبب سماج دشمن عناصر من مانی کر رہے ہیں‘ حکومت کے بقول اگرچہ معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں مگر درآمدات پر بے پناہ ٹیکسوں اور ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث نچلی سطح پر اس کے اثرات نہیں پہنچ سکے‘ 18 ویں ترمیم کے بعد مہنگائی پر قابو پانے سے متعلق زیادہ ذمے داریاں صوبائی حکومتوں پر عاید ہوتی ہیں جو اپنی یہ ذمے داریاں ادا کرنے میں مکمل ناکام رہی ہیں‘ اس کا نتیجہ عوام کو بے قابو ہوئی مہنگائی کی صورت بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ضیا الدین انصاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بنیادی طور پر جن اداروں کا کام مہنگائی پر قابو پانا ہے وہ حکومت کے قابو میں نہیں ہیں‘ حکومت مافیاز کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے‘ مختلف شعبوں میں مافیاز اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ حکومت کا ان پر کوئی کنٹرول نہیں‘ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کی شرح سے دیگر اشیا کی قیمتوں کا تعین کیا جائے تو بھی مہنگائی عوام کی برداشت سے باہر نہ بھی ہو مگر پیداواری اخراجات اور صارف سے وصول کی جانے والی قیمتوں میں بہت زیادہ تفاوت ہے‘ حکومت اس کو ختم کرنے کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامات کرنے میں مکمل ناکام دکھائی دے رہی ہے اور حکومت کی اس نا اہلی کی سزا عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔