!بھارت کا یوم جمہوریہ، اہل کشمیرکا یوم سیاہ اور پاکستان کا عزم جہاد

451

۔26 جنوری کو بھارت کا یوم جمہوریہ تھا، بھارت یہ دن دھوم دھام سے مناتا ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ دنیا میں وہ سب سے بڑی جمہوریت ہے اس میں شک نہیں کہ آبادی کے اعتبار سے بھارت دنیا میں سب سے بڑا نام نہاد جمہوری ملک ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقعے پر کشمیر میں بھی اُس نے جشن کے پروگرام ترتیب دیے یہ پروگرام اس صورتحال میں منعقد کیے گئے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں گو انڈیا نے یہ پروگرام 10 لاکھ افواج کے زیرسایہ منعقدکیے اور مقبوضہ کشمیر کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرکے اور جبرو ظلم کا پروگرام ترتیب دیکر ہی اس نے پروگرام منعقدکیے جو اس بات کا مظہر تھے کہ کشمیر کے عوام نے بھارتی قبضہ کو تسلیم نہیں کیا اور وہ بھارت سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارتی نیتاؤں کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیر کے عوام بھارتی یوم جمہوریہ کو بطور یوم سیاہ مناتے ہیں،اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ بھارتی جبری قبضہ کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے کہ جب تک انہیں اپنا بنیادی حق جسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے اور خود بھارتی قیادت نے بھی اقوام متحدہ میں اس کو تسلیم کیا ہے اور کشمیری عوام سے بھی بھارتی قیادت نے وعدہ کررکھا ہے کہ وہ اُن کو اُن کا بنیادی حق حق خودارادیت دیں گے لیکن 74 سال کا عرصہ گزر چکا ہے بھارت نے اپنے اس وعدہ کو جو اُس نے پوری دنیا کے سامنے کررکھا تھا اہل کشمیر نے اپنے اس حق حق خودارادیت کے لیے روز اول سے قربانیاں دی ہیں اور یہ قربانیاں اب تک جاری ہیں اہل کشمیر نے کون سی قربانی ہے جو اپنے اس حق آزادی کے لیے نہ دی ہو اب تک پانچ لاکھ کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، ہزاروں خواتین نے اپنی عزتوں کی قربانی دی ہے، ہزاروں نوجوانوں نے آزادی کی خاطر اپنی بینائی کو قربان کیا ہے، اربوں کی جائداد نذرآتش کروائی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوان، بچے، خواتین اور بزرگ قیادت پابند سلاسل کردی گئی ہے۔ جہاں پر سے اُن کے جنازے اُٹھتے ہیں۔ 905 دن ہوگئے ہیں کہ 10 لاکھ بھارتی افواج نے اُن کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے اُن کو محروم کررکھا ہے، اس سردی کے موسم میں جبکہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلاجاتا ہے لوگوں کو گھروں سے باہر نکال کر گھنٹوں کھڑا کردیا جاتا ہے اور گھروں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ جبرو استبداد کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے جو برابرجاری ہے۔ شاباش ہے اہل کشمیر کو اس سب ظلم وستم کے باوجود وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور اُن کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی ہے مسلسل وہ قربانیاں پیش کررہے ہیں ایک کشمیری شہید ہوتا ہے تو دوسرا اُس کی جگہ لینے کے لیے آجاتا ہے، نہتے، مجبور اور بے بس ہونے کے باوجود آزادی کے لیے دیوانہ وار قربانیاں دے رہے ہیں جس کی مثال موجودہ تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایک نہ ایک دن اُن کی یہ قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور انہیں آزادی مل کررہے گی۔
طول شب فراق سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے کہ جس کی سحر نہ ہو
اس بار بھی اہل کشمیر نے دونوں اطراف مقبوضہ کشمیر میں بھی اور آزادکشمیر میں بھی بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں کشمیری آباد ہیں انہوں نے بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ منایا۔ مقبوضہ کشمیر میں تو یہ دن بھارتی سنگینوں کے سایہ تلے ہوتا ہے آزادکشمیر میں بھی یہ دن تمام اضلاع اور اہم مقامات پر عوام پورے جوش وخروش سے یہ دن مناتے ہیں اور بھارتی مکروہ چہرے کو پوری دنیا میں بے نقاب کرتے ہیں۔ کشمیرکے عوام اس پر پرُ امن احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیوں اور سیمینار کے علاوہ اور کربھی کیا سکتے ہیں سو وہ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ 74 سال سے تو یہ ہورہا ہے یوم سیاہ، یوم احتجاج، قراردادیں، بیانات، انسانی زنجیریں وغیرہ وغیرہ کیا ان اقدامات سے انڈیا پر کوئی اثر ہوا ہے، کیا ہمارے اس احتجاج سے دنیا جاگی ہے کیا ہماری اس کارروائی سے عالم اسلام خواب غفلت سے بیدار ہوا ہے اگر اس کا جواب تلاش کیا جائے تو نفی میں ہوگا۔۔ بہرحال عوام اور وہ بھی نہتے عوام، بے بس اور مجبور عوام یہی کچھ کرسکتے ہیں وہ کررہے ہیں ہر موقعے پر کرتے ہیں مزید بھی کرتے رہیں گے۔۔۔ ضرورت اس بات کی
ہے کہ پاکستان اپنی ذمے داری کو محسوس کرے اور اُس ذمے داری کو ادا کرے وہ ذمے داری محض بیانات، قراردادیں منظور کرنا نہیں بلکہ افواج کو کشمیر کی آزادی کے لیے مارچ کا حکم دینا ہے۔ فوجی کاروائی کے بغیر کشمیر کی آزادی ناممکن ہے ہمارے سامنے ہے کہ مشرق پاکستان میں انڈیا نے فوجی کاروائی کی اور اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا۔ اُس نے مشرقی پاکستان کی عوام کو بھی منظم کیا اور اُس کے ساتھ عملاً فوجیں بھی مشرقی پاکستان میں داخل کیں۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ اس طرح کی فوجی کارروائی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے ضرور ی ہے اور اس کے بغیر کشمیرکی آزادی مشکل ہے اس لیے ہم حکومت پاکستان اور افواج پاکستان سے عرض کریں گے کہ وہ کشمیرکے لیے جو اس کی شہ رگ ہے اور جس کو دشمن مسلسل کاٹ رہا ہے آگے بڑھے اور اپنی افواج کشمیر میں داخل کرے یہی وہ واحد راستہ ہے یعنی جہاد ہی وہ واحد راستہ ہے جو کشمیرکو آزادی دلاسکتا ہے۔ بابائے کشمیر سید علی شاہ گیلانی نے پاکستان کی طرف سے سب سے بڑے سول اعزازحاصل کرنے کے موقع پر کہا تھا کہ پاکستان کشمیرکے سلسلہ میں اپنی جدوجہد تیزکردے اور کشمیر میں اپنی افواج داخل کرے اب بھارت کے یوم جمہوریہ کے پر اہل کشمیرکی طرف سے یوم سیاہ ہوگیا ہے اب حکومت پاکستان کی طرف سے ’’جہاد‘‘ کا آغاز ہونا چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے اور اہل کشمیرکا مطالبہ بھی:
ایسی مشکل تو نہیں دشت وفا کی تسخیر
سر میں سودا بھی تو ہو دل میں ارادہ بھی تو ہو