اسلام آباد (صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی درخواستیں اکثریت سے منظورکرلی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مختصر فیصلہ 26اپریل2021ء کو سنایا تھا۔ اکثریتی تحریری فیصلہ جسٹس مقبول باقر جسٹس مظہر عالم، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین نے تحریر کیا، عدالت نے قراردیا ہے کہ کیس ایف بی آر کو بھجوانے کے حوالے سے سرینا عیسیٰ کا موقف نہیں سنا گیا تھا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا حالانکہ آئین کے تحت شفاف ٹرائل ہر خاص و عام کا بنیادی حق ہے‘ صرف جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے لکھا ہے کہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچے عام شہری ہیں‘ ان کے ٹیکس کا 184/3سے کوئی تعلق نہیں‘ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں بھیجا جا سکتا‘ سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف ججز تک محدود ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے تحت سرکاری افسران ججز کے خلاف شکایت درج نہیں کرا سکتے‘ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ دراصل جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف شکایت ہی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ازخودنوٹس لینے کی ہدایت دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آزادی کے خلاف ہے‘ عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دینا غلط تھا، ججزکے خلاف کارروائی صدرپاکستان کی سفارش پرسپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کاٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکٹھا کیا گیا ۔عدالت عظمیٰ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ سرینا عیسیٰ کے ٹیکس معاملے پر وزیر قانون فروغ نسیم اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے شہزاد اکبر نے ہدایات دیں‘ ان ہدایات کی وزیر اعظم پاکستان نے توثیق کی جس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں‘غیر قانونی ہدایات سے گڈ گورننس اور وزیراعظم کی ملی بھگت کھل کر سامنے آتی ہے۔