کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی)پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہو چکی ہے‘کارٹل مافیا کے سامنے حکومتی بے بس مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ مہنگائی میں اضافے کی وجہ روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی ہے‘ ملک کی افرادی قوت کو غیر پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ پاکستان میں مہنگائی اور معاشی بدحالی تجارتی ادائیگیوں میں عد م توازن کی وجہ سے ہے ‘بلوم برگ کے مطابق پاکستانی کرنسی ایشیا میں سب سے بری کارکردگی دکھا رہی ہے‘ دولت کی غیر مساوی اور غیر منصفانہ تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے‘ معاشی افراتفری میں اشیا کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ان خیالات کا اظہار پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق، جامعہ کراچی شعبہ معاشیات کی پروفیسر ڈاکٹر صفیہ منہاج، معاشی تجزیہ نگار سجاد اظہر اور ممتاز صحافی تنویر ساحر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پاکستان میں مہنگائی کے اسباب کیا ہیں؟‘‘ ڈاکٹر صفیہ منہاج نے کہا کہ پاکستان میں مہنگائی اور معاشی بدحالی تجارتی ادائیگیوں میں عد م توازن کی وجہ سے ہے‘ اس کی سب سے بڑی وجہ درآمدات اور صنعتی برآمدت میں عدم توازن ہے‘ پاکستان کی درآمدات برآمدات کے مقابلے میںکئی گنا زیادہ ہیں‘ ہماری توجہ صنعتی پیداوار بڑھانے کے بجائے سروسز سیکٹر اور رئیل اسٹیٹ پر ہے جب کہ صنعتی ترقی ہی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا اہم تریں عنصر ہے‘ پاکستان کو ایک زرعی ملک قرار دیا جاتا ہے اس لحاظ سے ہماری زرعی پیداوار بہت زیادہ ہونی چاہیے تاہم ذخیرہ اندوزی اور نامناسب وقت میں زرعی پیداوار کی برآمد سے ایک زرعی ملک کے عوام کو زرعی اجناس مہنگے داموں ملتی ہیں‘ پیداواری لاگت کو بہانہ بناکر ہرچیزکو آوٹ سورس کرنے کی پالیسی بھی مہنگائی میں اضافے کا سبب ہے‘بجائے ا س کے کہ ملک میں کارخانے لگائے جائیں‘ افرادی قوت کو غیر پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ، جن میں ڈلیوری بوائے ،رائیڈر یا بائیکیا جیسی سروسز شامل ہیں‘ اپنی صنعتوں کی غیرموجودگی کی بنا پر ہم معمولی ضروریات زندگی کے لیے بھی درآمدت پر انحصار کرتے ہیں جس کی ادائیگی کے لیے ہم کو ڈالر استعمال کرنے پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈالرکی قدر میں اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سجاد اظہر نے کہا کہ اس ملک میں مہنگائی میں اضافے کی شرح 12.66 فیصد کی حدوں کو چھو رہی ہے‘ ظاہر ہے کہ جب ایک ڈالر 176روپے سے اوپر چلا جائے گا تو مہنگائی میں اضافہ تو ہو گا‘ 2017ء ایک امریکی ڈالر 104روپے کا تھا‘ آج 4 سال میں ڈالر کی قیمت میں تقریباً 74روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر ڈالر کی قیمت میں اضافہ نہ ہوا ہوتا تو پیٹرول آج 148روپے فی لیٹر کے بجائے 68 روپے میں فروخت ہو رہا ہوتا‘ گویا مہنگائی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی ہے‘ 2018ء میں بیرونی قرضے 70 ارب ڈالر تھے جو اب بڑھ کر 122ارب ڈالر ہو چکے ہیں جبکہ مجموعی قرضوں کا حجم 253 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے‘ صرف گزشتہ ایک سال میں مجموعی قرضوں میں37 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے‘ بڑھتے قرضوں کی وجہ سے روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور ’بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی کرنسی ایشیا میں سب سے بری کارکردگی دکھا رہی ہے اس کا براہ راست اثر غربت میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے اور عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد تقریباً 40 فیصد ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا کہ مہنگائی کی بڑی وجہ سرمائے کی پاکستان سے منتقلی اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر ہے‘ سرمایہ دار کو حق ہے کہ وہ وہاں اپنا سرمایہ لے کر جائے جہاں سے زیادہ پیسہ بنے‘ اگر ہماریملک کے سیاسی یا جغرافیائی حالات ٹھیک نہیں ہیں تو سرمائے کی منتقلی کو کوئی نہیں روک سکتا ‘ ا ٓپ اگر یہ نظام بدلنا چاہتے ہیں تو پھر اکانومی سے غیر ضروری بوجھ اتارنا ہو گا ‘ جن کو مراعات اور سبسڈی مل رہی ہے ان کو بند کرنا ہو گا‘ نیا نظام لے کر آنا ہو گا اور جب تک نیا نظام نہیں آئے گا‘ عوام چکی میں پستی رہیں گی‘ مہنگائی سے سب سے زیادہ جو طبقہ متاثر ہوا ہے وہ شہروں میں رہنے والا ہے جہاں اشیائے ضروریہ کے نرخ روز بڑھ رہے ہیں‘مکان کا کرایہ اور اشیائے خورد و نوش پر اٹھنے والے اخراجات دگنے ہو چکے ہیں جس کا اثر اگر دیکھنا ہو تو کسی بھی پرائیویٹ اسکول میں جا کر دیکھیں جہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مہنگے سے سستے اسکولوں میں شفٹ ہوئی ہے‘غریب غریب تر ہو رہا ہے‘ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اور بیرونی قرضوں کے دباؤ کی وجہ سے بجلی کے بل بھی دگنے ہو چکے ہیں۔ تنویر ساحر نے کہا کہ روپیہ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے‘ اس معاشی افراتفری میں اشیا ضروریہ کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آ رہا‘ بے شمار ٹیکسز بھی اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں‘ ذخیرہ اندوزی، ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں رکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث ہوتی ہے‘ بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضہ جات بھی معیشت کوکمزور کرتے ہیں‘حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کے لیے بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے بھی افراط زر پھیلتا ہے‘ دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے ‘ حکومت جب تک ذاتی مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی اس وقت تک معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو گا‘ لوگوں کے ذرائع آمدن پہلے ہی کورونا وائرس کے منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں‘ دنیا بھر میں حکومتیں کارٹل مافیا کو توڑنے کے لیے قوانین بناتی ہیں‘ پاکستان میں بھی اس پر مسابقتی کمیشن کا ادارہ موجود ہے لیکن حکومت کارٹل مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔