موثر حکمت عملی اور انتخابات میں کامیابی

533

دور حاضر میں الیکشن میں حصہ لینا اور جیتنا جدید ضروریات پر مبنی ایک فن اور پیشے کی حیثیت اختیار کر گیا، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو اپنی اور مخالف کی خوبیوں اور خامیوں کا پتا ہو، جدید ذرائع کو استعمال کرنے کا فن آتا ہو جس کے لیے آپ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک افراد کی خدمات سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔ آپ کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کس قسم کی حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ جس میں پارٹی کا منشور، بیانیہ، پارٹی قائد کی شخصیت، اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات، میڈیا اور سوشل میڈیا کا موثر استعمال، مالیاتی بجٹ شامل ہیں۔
پاکستان میں مختلف صوبوں، دیہاتوں، شہروں میں ووٹر کے ووٹ دینے کی سوچ مختلف ہوتی ہے ووٹ لینے کے لیے اس سوچ کو سمجھنا ضروری ہے کئی لوگ جماعتی منشور اور نظریے کو ووٹ دیتے ہیں یا کام نکلوانے کے لیے ووٹ دیتے ہیں یا اس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جس کے جیتنے کی امید سب سے زیادہ ہو۔ یا پھر دھڑے بندی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں دیہاتی علاقے میں دھڑے بندی کا نظام مختلف برادریوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ ووٹر کو گھر سے یہ سوچ نکالتی ہے کیسے اپنی ذاتی زندگی اور اپنے ارد گرد کے ماحول میں کوئی تبدیلی دیکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں ووٹر کے لیے سب سے اہم چیز امیدوار تک پہنچ ہے۔ آپ کو کہیں بھی پہنچنے کے لیے واسطہ یا کوئی جان پہچان چاہیے ورنہ آپ کو قواعد و ضوابط میں پھنسا دیا جائے گا۔ ووٹرز کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو مسائل کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے ماہرین کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے کا زیادہ رجحان ہے، نہ کہ امیدوار کی اپنی مقبولیت۔ اسی طرح صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں الیکٹ ایبلز وہ امیدوار جن کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں حمایتی ہوتے ہیں، وہ اس روایتی فہم کے مخالف جاتی ہے کہ ووٹ صرف پارٹی کو ملتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں مذہبی پارٹیوں کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے اور انہوں نے کئی مضبوط حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق مذہبی پارٹیوں کو کچھ لوگ ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں مجموعی طور پر اور پنجاب میں خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے۔ خیبر پختون خوا میں اس کا رجحان قدرے زیادہ ہے ایک بات اہم ہے مذہب کبھی بھی انتخابات میں مرکزی بیانیہ بن کر سامنے نہیں آیا کہ لوگ اس کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں۔ مذہبی جماعتیں دین کے نام پر ووٹ مانگتی ہیں لیکن وہ کوئی خاطر خواہ مقبولیت نہیں رکھتیں۔ مذہبی جماعتوں کا ووٹ مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آج تک کوئی مذہبی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ پسندیدہ شخصیت، پاکستانی سیاست میں شخصی اہمیت کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی بہت اہمیت ہے کہ پارٹی کا رہنما مقبول ہو کیونکہ عوام اسے اپنا رہبر مانتے ہیں۔ اور وہ طبقہ اسی لیے ان کا گرویدہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں مقبول سیاستدانوں نے عوام میں مختلف سطح پر شہرت حاصل کی۔ کسی رہنما نے نظریاتی بنیادوں پر مقبولیت حاصل کی تو کسی نے ذاتی حیثیت میں ان کی حمایت حاصل کی۔ ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ذات اور قومیت شہری علاقوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے اہم کردار نہیں رکھتی لیکن دیہی علاقوں میں اس کی اہمیت ہے جیت کے لیے اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ہو۔
پاکستان دنیا میں کم شرح سے ووٹ کاسٹ کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے جیت کے لیے اس رجحان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن مہم کے لیے ہر قسم کی الیکٹرونک، موبائل ٹیلی فون، ڈیجیٹل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں موجود ہیں، ان سب سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ووٹر سے ملاقات ہے۔ یہ ملاقات دراصل الیکشن کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی کی برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی کی مثال کو پیش کیا جا سکتا ہے جس نے بالمشافہ ملاقاتوں کے طریقے کو ہر بار اپناتے
ہوئے عوام سے قریبی رابطہ قائم کیے رکھا اور اسی طریقے سے ہر بار پہلے سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ اس جماعت نے روایتی طریقے سے ہٹ کر بالمشافہ ملاقاتوں کے طریقے کو اپنا کر ایسے لوگوں تک بھی رسائی حاصل کی جو اس سے قبل ہمیشہ نظرانداز کیے جاتے رہے ہیں اور یہ لوگ ووٹ ڈالنے میں ذرّہ بھر بھی دلچسپی نہیں لیتے تھے اس نے خواب خرگوش میں کھوئے ہوئے ان افراد کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرنے کے لیے خصوصی سیل قائم کیے جس نے صرف اس قسم کے افراد کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرتے ہوئے ان کے ووٹوں کو ڈلوایا۔ برسراقتدار پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں نے کئی بارخود ان افراد کے گھروں پر جا کر انہیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ملک کے اقتدار کو انہی کی جانب سے تبدیل کیے جانے کے سنہری اصول سے با خبر کیا۔ اس جماعت نے کبھی اپنے کٹر مخالفین سے ووٹ حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہ کی اور نہ اپنا وقت ضائع کیا۔ ان کی بھرپور توجہ ایسے ووٹروں کی جانب تھی جوکسی جماعت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے تھے اور گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ پارٹی نے بالمشافہ ملاقات کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج اب بھی سیاست میں ایک طاقتور فریق ہے، ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی جماعت کی جیت یا ہار سے جڑے مفادات فیصلہ کن عنصر رہا ہے۔ ایک اور تجزیہ کار اس کو مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ فوج کا اپنا بڑا ووٹ بینک ہے۔ ملک میں سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زائد ہے اور اگر ان کے خاندان کو شامل کیا جائے اور اس کے ساتھ ان افراد کے خاندانوں کو شامل کیا جائے جن کے مالی مفادات فوج سے جڑے ہیں تو یہ تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔ اس لیے فوج ایسا سیاسی ماحول پیدا کر سکتی ہے جہاں آزاد اور شفاف انتخابی مقابلہ نہیں ہو گا۔
سوشل میڈیا نے پوری دنیا کی سیاست میں انقلاب برپا کیا، بہت ساری سیاسی کامیابیوں کے پیچھے بہترین سوشل میڈیا مہمات کا عمل دخل ہے۔ پاکستانی سیاست میں سوشل میڈیا کا کردار اہم ہوتا جا رہا ہے پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 10 کروڑ 50 لاکھ کے قریب ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ چند سال سے نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی ذاتی زندگی، معاشرتی رویے، حکومتی پالیسیوں اور سیاست پر جو چیز سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے وہ ہے سوشل میڈیا، یہ کہنا غلط نہ ہو گا 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے پیچھے بہترین سوشل میڈیا مہم کا عمل دخل ہے آن لائن پبلشنگ کی گریجویٹ بشریٰ سلطانہ کے مطابق دیگر ذرائع ابلاغ اور سیاسی جلسوں کی نسبت سوشل میڈیا کے ذریعے لوگ بہتر طور پر اپنے سیاست دان سے براہ راست بات چیت کر لیتے ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سیاسیات کے استاد رسول بخش رئیس کے مطابق لوگوں نے روزمرہ سیاست میں پھر سے دلچسپی لینا شروع کر دی ہے اور سماجی رابطے کے نئے ذرائع اور آلات سے ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جائے گا کہ کون سی جماعت اور کون سے امیدوار ان کی حمایت کے اہل ہیں۔ بھارت کی سیاسی تاریخ میں پہلے ’’سوشل میڈیا انتخابات‘‘ سمجھے جانے والے 2012 کے انتخابات نے بھارتی سیاست میں سوشل میڈیا انقلاب کی بنیاد رکھی۔ 2012 میں بی جے پی جسے پیشہ ور ایجنسیوں کی مدد بھی حاصل تھی، اس کی سوشل میڈیا مہم کی توجہ کا مرکز اس وقت کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے تشخص کی تعمیر، ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ اور حکمران جماعت کانگریس پر تنقید تھا۔
انتخابات میں پیسہ بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے کی رسم 1985 کے انتخابات میں شروع ہوئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان خاموش تماشائی بنا رہا اسی دور میں سینیٹ کے انتخابات میں بھی پیسہ چلنا شروع ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کرپشن، اسمگلنگ جیسے مختلف جرائم میں ملوث تھے۔ آج 2018 کے قومی، سینیٹ کے انتخابات یا 2021 میں خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات ہوں مختلف جماعتوں نے الیکٹ ایبلز کی سیاست کی بے بہا کرپشن سے حاصل کیا گیا پیسہ استعمال کیا، اس رویے نے پاکستان کی سیاست پر منفی اثرات چھوڑے۔
ایسی جماعتیں آج بھی آئین کی دفعہ باسٹھ اور تریسٹھ کے مطابق امیدوار میدان میں اتارتی ہیں، جو کرپشن میں ملوث نہیں ہیں انہیں چاہیے 2023 کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن اور عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹائیں، اور قوانین کو عملدرآمد کروانے کے لیے بھرپور عوامی تحریک چلائیں۔ اور ترجیحی بنیادوں پر جن حلقوں پر جیتنے کی امید ہے اس کے لیے علٰیحدہ سے بجٹ مختص کریں، وقت سے پہلے بالمشافہ ملاقات کا آغاز کرتے ہوئے مہم کا آغاز کریں۔ عوام کی ایک تعداد منشور اور بیانیہ کی بنیاد پر ووٹ دیتی ہے پاکستان میں منشور اور بیانیہ آج کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بنانا چاہیے، سب سے پہلے آج کے مسائل نوٹ کریں جیسے معاشی بحران، مہنگائی، بیروزگاری، غربت وغیرہ اس کی بنیاد پر آپ اپنا منشور اور بیانیہ ترتیب دیں اور اسلامی جماعتوں کو بھرپور جارحانہ مہم اور بیانیے کے ذریعے عوام کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ جیت سکتی ہیں اور حکومت ملنے کی شکل میں معاشی بحران سے نکلنے اور تمام امور کو چلانے کا فن جانتی ہیں ایک عملی ماڈل دینا ہوگا۔ الیکشن 2023 کا منظرنامہ یہ بتارہا ہے کہ کراچی، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں دینی جماعتوں کو بڑا ووٹ ملے گا جس کی انہیں آج سے تیاری کرنی چاہیے۔