نماز کی شرائط میں سے ہے کہ نماز کی جگہ اور نمازی کا جسم اور کپڑے پاک ہوں اور وہ باوضو ہو۔ البتہ اگر اس معاملے میں کوئی عذر ہو تو بہ قدر عذر گنجائش ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمے داری کا بوجھ نہیں ڈالتا‘‘۔ (البقرۃ: 285)
اور جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان میں سے پیشاب، پاخانہ اور ریاح خارج ہونا بھی ہے۔
اگر کسی شخص کو مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے پیشاب روکنے پر قدرت نہ ہو تو اس کیفیت کو ’سلس البول‘ کہا جاتا ہے۔
اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پیشاب کے قطرے مسلسل ٹپکتے ہوں۔ جتنی دیر میں ایک فرض نماز پڑھی جا سکتی ہو اتنی دیر بھی قطروں کا ٹپکنا بند نہ ہوتا ہو۔ ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہر فرض نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرلے، پھر اس وضو سے جتنی چاہے فرض یا نفل نمازیں پڑھے اور قرآن مجید کی تلاوت کرے۔ جب تک اس نماز کا وقت رہے گا وہ باوضو سمجھا جائے گا۔ البتہ دوسری نماز کا وقت شروع ہونے پر اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
اسے ’استحاضہ‘ ( ایّامِ حیض کے علاوہ خون آنا) کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے، جس کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔ عروہ بن زبیرؓ سیدہ عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں: ایک خاتون نے اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا: مجھے استحاضہ کا خون مسلسل آتا ہے۔ پھر کیا میں نما ز چھوڑ دوں؟ آپ نے جواب دیا: ’’نہیں یہ تو کسی رگ کا خون ہے، حیض کا نہیں ہے۔ جب حیض آنے لگے تب نماز چھوڑو اور جب حیض ختم ہوجائے تو خون دھونے اور غسل کرنے کے بعد نماز پڑھا کرو‘‘۔ عروہ نے مزید بیان کیا: ’’پھر ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرو، یہاں تک کہ ایامِ حیض آجائیں‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہی حکم ان لوگوں کے لیے بیان کیا گیا ہے جن کو مسلسل پیشاب آنے یا ریاح نکلنے کا مرض ہو، یا ان کے زخموں سے مسلسل خون رِستا ہو۔ ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
’’خلاصہ یہ کہ مستحاضہ عورت اور وہ شخص جسے مسلسل پیشاب یا مذی آنے کا مرض ہو یا وہ زخمی جس کے زخم سے مسلسل خون رِس رہا ہو، یا ان جیسے دیگر لوگ، جس شخص سے کوئی ایسی چیز مسلسل خارج ہو رہی ہو جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہو اور اس کے لیے اپنی طہارت باقی رکھنا ممکن نہ ہو، وہ متاثرہ جگہ کو دھوئے گا، اسے باندھ لے گا اور حتّیٰ الامکان کوشش کرے گا کہ گندگی باہر نہ نکلے، پھر ہر نماز کے لیے وضو کرے گا‘‘۔ ( المغنی)
اگر پیشاب کے قطرے مسلسل، یہاں تک کہ دورانِ نماز بھی نکل رہے ہوں اور ان سے کپڑا (پاجامہ یا لنگی وغیرہ) آلودہ ہو رہا ہو توکپڑے کو دھونا ضروری نہیں، اس کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر قطروں کا ٹپکنا مسلسل نہ ہو، درمیان میں اتنا وقفہ رہتا ہو کہ اس میں نماز ادا کی جا سکتی ہو تو کپڑے کو دھوکر، یا دوسرا پاک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا ضروری ہے۔
اگر کسی شخص کو پیشاب کرنے کے بعد کچھ دیر تک قطرے آتے ہوں (مسلسل نہ ٹپکتے ہوں) تو مناسب یہ ہے کہ وہ نیکر یا چڈّی استعمال کرے اور اس کے اندر ٹشو پیپر، روئی یا کپڑے کا ٹکڑا رکھ لے۔ جب تک اس کے بیرونی حصے پر پیشاب کی تری کا اثر ظاہر نہ ہو، وضو ٹوٹنے کا حکم عائد نہ ہوگا۔
آج کل پیمپر کا استعمال بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے عام ہوگیا ہے۔ یہ چڈّی کی طرح کا ایک زیر جامہ لباس ہے، جسے پہنا دیا جاتا ہے تو پیشاب اسی میں جذب ہوتا رہتا ہے اور باہر نکل کر بستر یا بیرونی لباس کو گندا نہیں کرتا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پیمپر پر ایک درہم (یعنی ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار) کے برابر نجاست لگی ہو اور وقتِ ضرورت اسے بہ آسانی جسم سے الگ کردینا ممکن ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں۔ البتہ اگر پیشاب آنے کی شکایت اتنی زیادہ ہو کہ ایک پیمپر ہٹاتے اور دوسرا پہناتے ہی وہ بھی پیشاب سے آلودہ ہوجاتا ہو تو پھر اسے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر پیمپر بار بار تبدیل کرنے میں بہت زیادہ مشقّت ہو تو یہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:
’’ایک ایسا مریض جس کے نیچے ناپاک کپڑے ہوں، اگر اس کی حالت ایسی ہو کہ جیسے ہی کوئی کپڑا بچھایا جائے فوراً ناپاک ہوجاتا ہو، تو وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب ناپاک کپڑا بدلوا کر دوسرا کپڑا پہنانے کی صورت میں وہ (دوسرا کپڑا) ناپاک نہ ہوتا ہو، لیکن اسے بدلوانے میں بہت زیادہ مشقّت ہوتی ہو۔ فتاویٰ قاضی خاں میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے‘‘۔ (الفتاویٰ الھندیۃ: 137/1، باب 14، فی صلاۃ المریض)
یہی حکم اس شخص کے لیے بھی ہے جس کو مسلسل ریاح خارج ہونے کا مرض ہو۔