منشیات کیس میں سزائے موت ختم، ٹرائل 9 ماہ میں نہ ہونے پر وضاحت دینا ہوگی ، سپریم کورٹ بار نے تجاویز مسترد کردیں

254

اسلا م آباد(صباح نیوز)ضابطہ فوجداری میں ترامیم کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں جب کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزارت قانون و انصاف کی طرف سے فوجداری قانون میں لائی گئی مجوزہ اصلاحات مسترد کردی ہیں۔جمعرات کو فوجداری قانون اور نظام
انصاف میں اصلاحات کے حوالے سے اسلام آباد میں افتتاحی تقریب بھی منعقد کی گئی۔ضابطہ فوج داری میں ترامیم کی تفصیلات سامنے آگئیں جس میں مختلف شعبہ جات میں ترامیم کی گئی ہیں۔ مجوزہ ترامیم میں کہا گیا ہے ایس ایچ او کے لیے گریجویشن کی ڈگری لازمی ہو گی اور جہاں مقدمات کا بوجھ زیادہ ہو گا وہاں ایس ایچ او اے ایس پی رینک کا ہو گا۔مجوزہ فوجداری ترمیمی قوانین کے مطابق مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور بینک اکائونٹس بلاک کر دیے جائیں گے جبکہ جلسے ، جلوسوں میں اسلحہ لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی ، دفعہ 161کے تحت ہونے والے بیانات کی آڈیو ،وڈیو ریکارڈنگ بھی کی جائے گی،پراسیکیوٹر تفتیش سے مطمئن نہ ہو تو مزید یا ازسرنو تحقیقات کا کہہ سکے گا ۔ملزمان کے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ میں ماہر نفسیات بھی شامل ہوں گے۔ ترامیم کے مطابق فوجداری مقدمات کا ٹرائل9ماہ میںہوگا،ہر ماہ ہائیکورٹ کو پیشرفت رپورٹ جمع کرانی ہو گی، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر سیشن کورٹ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکے گی اور 9 ماہ میں ٹرائل مکمل نہ ہونے پر ٹرائل کورٹ ہائیکورٹ کو وضاحت دینے کی پابند ہو گی، ٹرائل کورٹ کی وضاحت قابل قبول ہوئی تو مزید وقت دیا جائے گا ۔ بل میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ ٹرائل کورٹ میں گواہان کے بیانات کی آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی، گواہ بیان کے ٹرانسکرپٹ سے اختلاف کرے تو ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جائے گا، گواہ عدالت نہ آ پائے تو وڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرا سکیں گے جبکہ بیرون ملک مقیم گواہان بھی مجاز افسر کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کرا سکے گا۔ترامیم کے مطابق فوجداری مقدمات میں3 دن سے زیادہ کا التوا نہیں دیا جا سکے گا،3 دن سے زیادہ التوا دینے پر ٹرائل کورٹ کو وجوہات بتانا ہوں گی۔اس کے علاوہ فوجداری ریفارمز میں منشیات مقدمات میں سزائے موت ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سزائے موت کی جگہ مجرم کو باقی تمام زندگی جیل میں گزارنے کی سزا ہو گی۔ریلوے ایکٹ میں بھی سزائے موت ختم کرنے کی تجویز دیدی گئی ہے جبکہ غیر قانونی پولیس حراست پر7سال تک سزا کی تجویز کی گئی ہے اور مفرور ہونے پر بھی 7سال تک کی سزا بھی مقرر کرنے کی تجویز کی گئی ہے۔فوجداری قوانین کی مجوزہ ترامیم کے مطابق خواتین کی جاسوسی اور پیچھا کرنے کو بھی جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ کوئلے پر چلنے اور کسی کو پانی میں پھینکنے کو بھی جرم قرار دینے کی تجویز ہے۔ترامیم میں یہ بھی لکھا ہے کہ آڈیو، وڈیو اور ای میلز بھی قابل قبول شواہد تصور ہوں گے، وڈیو درست ثابت ہو تو بنانے والے کی عدالت میں پیشی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزارت قانون و انصاف کی طرف سے فوجداری قانون میں لائی گئی مجوزہ اصلاحات مسترد کردی ہیں۔ صدر سپریم کورٹ بار محمد احسن بھون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزارت قانون و انصاف کی نام نہاد مجوزہ کریمنل لا ریفارمز تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول وکلا برادری کی مشاورت کے بغیر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ اصلاحات سے نہ صرف موجودہ کریمنل جسٹس سسٹم کو خطرات لاحق ہیں بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر عوام کو موثر ، شفاف اور انصاف کی جلد فراہمی کے طریقہ کارکو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔ احسن بھون نے واضح انداز میں مجوزہ لا ریفارمز کو مستردکرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ انہیں اور ان کی قانونی ٹیم کو قانون کے حوالے سے علم ہی نہیں ہے،ان ریفارمز سے نہ صرف فروغ نسیم بلکہ ان کی ٹیم کی نااہلی واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجموعی طورپر کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے لا ریفارمز انتہائی ضروری ہیں لیکن انفرادی طورپر اور مشتبہ انداز میں حساس معاملات کے بارے میں اقدامات کرنے سے صرف آگ کو ایندھن فراہم ہوگا۔ احسن بھون نے مشاورتی عمل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوامی اور عدالتی اہمیت کے معاملے پر مشاورتی عمل کو ترجیح دینی چاہیے۔ وزارت قانون کو قانونی اصلاحات کے حوالے سے وکلا برادری سے بھی رائے لینی چاہیے تھی تاکہ مزید بہتر قابل عمل قوانین بن سکیں۔ انہوں نے کہاکہ جو ترامیم تجویز کی گئی ہیں وہ آئی واش اور مصنوعی کام ہے جس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔ صدر سپریم کورٹ بارنے مزید تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ان کے علم کے مطابق فوجداری قانون میں اصلاحات یاترامیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کی قانون و انصاف کمیٹی ارکان سے بھی مشاورت نہیں کی گئی جو کہ انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔