سندھ میں نئے بلدیاتی نظام کے منفی اثرات اور حق تلفیوں کو قانونی حیثیت سے دینے کی وجہ سے اس نئے واضح متعصبانہ نظام کے خلاف سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف نے سخت مخالفت کی۔ پی ڈی ایم، جی ڈی اے، ایم کیو ایم اور دوسری جماعتیں اس کے خلاف آواز بلند کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی نے عملی جدوجہد کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ’’حق دو کراچی کو‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور سندھ اسمبلی کے باہر پُرزور مگر پرامن ’’دھرنا‘‘ شروع کردیا جس کو 23 روز ہوگئے ہیں۔ اس میں نوجوان، بچے، بوڑھے، خواتین، تمام شعبوں سے اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاص محنت کش طبقہ اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ سخت سردی میں بھی ان کے پائیہ ثبات کو لغزش نہیں آئی۔ یہاں بنیادی حقوق کو پامال کرنا، خلاف قانون کام کرنا، ایک فیشن اور شغل بن گیا ہے۔ زور آور طبقہ من مانی کررہا ہے اور کمزور ظلم سہہ رہا ہے۔ سندھ کے شہری بالخصوص کراچی، حیدر آباد، سکھر میں رہنے والے حقوق سے محروم کیے جارہے ہیں اور یہ حق تلفیاں ببانگ دہل کی جارہی ہیں۔ ہزاروں شہریوں کو حکومت سندھ کی ملازمتوں میں آنے سے روک دیا گیا ہے۔ ایم ایڈ میں کراچی سے فرسٹ کلاس فرسٹ ڈگری لینے والے درس و تدریس کے لیے منتخب نہیں کیے جاتے۔ انجینئرز، ڈاکٹرز، ایم اے، پی ایچ ڈی تک کو (جو شہری ہیں) حکومتی ملازمتوں سے دور رکھا جارہا ہے۔ شہری بلدیات اور اداروں پر شہریوں کے حق کو تسلیم کرانے کے لیے جماعت اسلامی کی مہم ’’حق دو کراچی کو‘‘ بہت قابل تحسین اور ملکی بقا اور یکجہتی کی تحریک اور مہم ہے۔