ملک کے عوام کی محافظ وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردی کا خطرہ ہے، ریڈ الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی شرائط قبول نہیں، لڑائی چاہتی ہے تو لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں شکست کے بعد را کے گروپس پاکستان میں دہشت گردی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سی پیک کا حوالہ دیا کہ دہشت گردی کا ایک سبب سی پیک ہے۔ اس کا راستہ روکنے والی قوتیں یہ چاہتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپوزیشن کی طرف رخ کرکے الزامات شروع کردیے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم جارہے ہیں ان کی عقل کام چھوڑ چکی ہے۔ ہم جارہے ہیں نہ آپ آرہے ہیں۔ صدارتی نظام یا ایمرجنسی کی کوئی تجویز نہیں۔ یہ عجیب رویہ ہے کہ جس کا کام تحفظ اور امن دینا ہے لوگوں کو اطمینان و سکون دینا ہے خوف سے نجات دلانا ہے وہ عوام کے تحفظ کے بجائے ان میں خوف پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔ حکومتوں کا کام عوام کے تحفظ کے اقدامات کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں وزیراعظم، وزیرخزانہ مہنگائی کی اطلاع دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ابھی مزید مہنگائی ہوگی۔ پھر وزیراعظم کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ ڈالر ایک جھٹکے میں 108 سے 170 پر پہنچ گیا، اس پر بھی گھبرانا نہیں، اس کے نتیجے میں مہنگائی ہوگئی، مفت اور سستا پٹرول لے کر عوام کو مہنگا دیتے رہے اس پر بھی کہتے ہیں گھبرانا نہیں۔ چوروں سے خود خوفزدہ ہیں اپنی صفوں میں بٹھا رکھا ہے اور اپوزیشن کو چور چور کہہ کر ان کو مظلوم اور مقبول بنادیتے ہیں۔ حکومتوں کا کام یہ نہیں ہوتا۔ اب وزارت داخلہ اور وزیر داخلہ نے جو کام کیا ہے وہ تو اپوزیشن، میڈیا اور تحقیقاتی اداروں کا کام ہے۔ لیکن وزارت داخلہ یہ بھی بتاتے کہ کوئی اقدام بھی ایسا کیا ہے جس کے نتیجے میں وہ کہہ سکیں کہ ہم نے فلاں فلاں راستے سے دہشت گردی ختم کردی ہے۔ ہم نے فلاں گروہ کا خاتمہ کردیا ہے لیکن وہ تو صرف کمنٹری کررہے ہیں۔ یہ کام تو بہت سے ٹی وی چینل کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ کو یاد نہیں رہا کہ وہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات کرچکے تھے یہ بھی کہا تھا کہ مذاکرات ہورہے ہیں لیکن دبائو پڑا تو یوٹرن لیا اور کہا کہ میں نے تو ایسی بات نہیں کہی تھی۔ اب پھر کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی شرائط قبول نہیں۔ وہ ذرا یہ بتائیں کہ مذاکرات نہیں ہورہے تو ٹی ٹی پی نے شرائط کب پیش کیں۔ ان کے مطالبات کیا ہیں، کس ذریعے سے یہ شرائط ان کو ملیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد را کی دہشت گردی کی بات کا جواز تو بنتا ہے لیکن اصلی طالبان کے افغانستان میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے قوت پکڑنے کا جواز نہیں بلکہ وہ تو اب کمزور ہوجانے چاہیے تھے۔ مزید یہ کہ ان کو مزید کمزور کرنے کے لیے افغان طالبان کی حکومت تسلیم کرلی جائے جس روز یہ کام ہوجائے گا ٹی ٹی پی پاکستان کی شرائط پر امن قائم کرنے پر راضی ہوگی۔ افغان عوام کے لیے وزیراعظم ، آرمی چیف، اقوام متحدہ بیان تو سب دے رہے ہیں لیکن حکومت کو تسلیم نہیں کر رہے۔ تو پھر المیہ جنم لے گا۔وزیرداخلہ نے بڑے عزم کے ساتھ کہا ہے کہ ٹی ٹی پی لڑنا چاہتی ہے تو ہم لڑیں گے۔ ان کو معلوم ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے، ٹی ٹی پی سے لڑائی کا نقصان تو سارا عوام کو ہوگا۔ پاکستان نے پہلے بھی ایک نامعلوم دشمن سے طویل لڑائی لڑی ہے اس میں سیکورٹی کے جوانوں اور افسروں سمیت ہزاروں افراد کی جانیں قربان ہوئیں۔ ٹی ٹی پی کو ختم کرنے کے تین چار دعوے کرنے والے جنرل پرویز بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ کوئی یہ بتائے کہ کمر توڑ دی، صفایا کردیا، آخری دہشت گرد کو ہلاک کردیا۔ لیکن جس روز یہ دعویٰ کیا گیا وہ اس روز یا اگلے ایک دو دن میں نئی دہشت گردی ہوجاتی تھی۔ ٹوٹی کمر والے دہشت گرد صاف بچ نکلتے ہیں یا دھماکوں میں خود بھی مارے جاتے ہیں۔ شیخ رشید صاحب کی شرط تو سامنے آگئی کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے آئین اور جھنڈے کو مانے ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن ایسا تو ہر معاملے میں نہیں ہوتا۔ پاکستان کے آئین اور جھنڈے کو نہ ماننے والوں کو پہاڑوں سے اتار کر وزیراعلیٰ بنایا جاتا ہے، تو کیا انہوں نے پہلے یہ شرائط مانیں تھیں۔ ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے بعد یہ باتیں منوائی گئیں۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ٹی ٹی پی ہے کیا۔ اس کی حقیقت بھی سب جانتے ہیں یہ کب زندہ ہوتی ہے کب اس کی کارروائیاں ہوتی ہیں اور کب یہ سوجاتی ہے۔ لیکن حکمرانوں کا طریقہ عوام میں اعتماد اور اطمینان پیدا کرنے کے بجائے انہیں خوفزدہ کرنے کا ہے۔ اس رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے، جنگ لڑنی ہے تو بھارت سے لڑیں کشمیر حاصل کریں۔ ٹی ٹی پی تو اس کی ایجنٹ ہے اس کے بجائے اصل دشمن سے لڑیں۔اس کے معاملے میں امن پسندی اور ذمے دار ریاست کی بات کرنے لگتے ہیں۔ بھارت جیسے غیر ذمے دار ملک کے بارے میں یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے۔