پاکستان میں صدارتی نظام کی گونج

951

پاکستان کے سماجی و سیاسی حلقوں گزشتہ کچھ عرصے سے صدارتی نظام کی گونج سنائی دیتی ہے، ہمارے بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایک قوم کی طرح سوچ و بچار کے بعد جمہوری اداروں کے ذریعے اتفاق رائے کے نتیجے میں قومی مفادات کے پیش نظر دور رس منصوبہ سازی اور فیصلے کرنے کے عادی نہیں، یہاں تک کہ ہمارے اہم ترین اسٹرٹیجک معاملات میں بھی ملکی قیادت کے منصب پر فائز افراد ایسے اقدمات، تبصرے اور باتیں کرجاتے ہیں جن سے قومی مفادات کی نفی اور ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، مثلاً پرویز مشرف کی کارگل مہم جوئی، کشمیر کے معاملے پر پیش کردہ فارمولے یا موجودہ حکومت کے وزیر ہوابازی کے پی آئی اے پائلٹوں کی اہلیت بارے داغے گئے بیانات، بطور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چودھری کے ریکوڈک بابت یا ثاقب نثار کے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ بابت کیے گئے فیصلے، یہ تو محض چند مثالیں ہیں، اس طرح کے فیصلے اور بیانات لاتعداد ہیں۔ ہم دراصل ایک قوم نہیں بلکہ ہجوم ہیں، جہاں فیصلے متعلقہ ادارے سوچ بچار، اتفاق رائے اور قومی مفاد میں نہیں، بلکہ ذاتی پسند، انفرادی خواہشات اور بالعموم بھیڑ چال کے تحت کیے جاتے ہیں۔
آپ نے وزیراعظم عمران خان کو اکثر یہ کہتے سنا ہوگا کہ وہ ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں، یا چین جیسا، یا یورپ یہاں تک کہ سعودیہ جیسا نظام لانا چاہتے ہیں، مگر کیا کبھی ان آپشنز پر سنجیدہ غور و فکر کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے؟ کیا اس بات کا ایک ڈاکٹر کی طرح جائزہ لیا گیا، کہ مرض کی علامات، مریض کی طبی تاریخ (میڈیکل ہسٹری)، بلد پریشر، ذیابیطس اور دیگر پس پردہ بیماریوں اور وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے، دوا تجویز کی جائے؟ یا پھر عطائی طبیبوں کی طرح ہر آنے والے مریض کو ایک ہی دوا دی جانی چاہیے؟ کیا ہر طرح کی زمین میں ایک ہی فصل کاشت کی جاسکتی ہے؟ یا ہر طرح کے ماحول میں ایک ہی قسم کا بیج بارآور ہوسکتا ہے؟ کیا ہر خطے، ملک اور قوم کے لیے زمان و مکان کی قیود سے آزاد، جغرافیائی، معاشی، سماجی، سیاسی، مذہبی، نسلی، لسانی، ثقافتی، روایات اور مزاج کے تفاوت کو پس پشت یا بالائے طاق رکھ کر ایک فارمولا نظام وضع کیا جا سکتا ہے، جس کا کامیابی سے جب چاہیں جہاں جہاں اطلاق کیا جا سکے؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو امریکا اب تک عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں مغربی تصور کے مطابق آزاد جمہوری نظام نافذ کرچکا ہوتا، مگر افسوس انسانی نفسیات اور سماجی نظام اب تک کسی خود ساختہ فارمولے کے تابع نہیں ہوسکے۔
اب اسی تمہید کے پیرائے میں صدارتی نظام کی گونج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سلسلے میں سب سے اولین اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ جب بھی کسی ملک، قوم یا ریاست کے نظام میں تبدیلی کی بات کی جاتی ہے تو اس کا سیدھا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موجودہ نظام جزوی یا کلی طور پر ناکام ہوچکا ہے، اگر یہ ناکامی جزوی ہو تو نظام کی تبدیلی کی نہیں بلکہ اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے، اور اگر کلی ناکامی تسلیم کرلی جائے تو کئی منطقی سوال پیدا ہوتے ہیں جیسے کہ کیا نظام چلانے والوں نے نظام میں اصلاح کے لیے درکار تمام تر آپشنز استعمال کرلیے ہیں؟ مثال کے طور پر اصلاح احوال کے لیے کیا قانون سازی کی گئی؟ مروجہ قانون پر عمل درآمد کے لیے کیا کوشش کی؟ اداروں کی اصلاح احوال کے لیے کیا اصلاحات اور اقدامات کیے گئے؟ اگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، تو پھر صرف نظام ہی تبدیل نہیں ہوگا، اس نظام کو بنانے، چلانے، اور قائم رکھنے والے ارباب اختیار و اقتدار بھی رخصت ہوں گے، کیوں کہ نظام کی ناکامی دراصل ان کی ناقص منصوبہ بندی، نا اہلیت یا عمل درآمد میں ناکامی پر دلالت ہے۔ اور یہ کام محض تبدیلی
سے نہیں بلکہ انقلاب کے ذریعے ہوگا۔ ایک ایسا انقلاب جو نہ صرف اس نظام کو تلپٹ کردے گا بلکہ اس کے حاشیہ برداروں کو بھی گھر، اکثر صورتوں میں ابدی گھر بھیج دے گا، جیسا کہ انقلاب فرانس، انقلاب روس و چین یا پھر زمانے اور محل وقوع کے لحاظ سے ہم سے زیادہ قریبی افغانستان میں ہوا۔
اب آتے ہیں پاکستان میں صدارتی نظام لانے کی باتیں کرنے والے تاریخ، سیاسیات، حالات حاضرہ اور بین الاقوامی تعلقات جسیے علوم سے نابلد ان نوآموز کھلاڑیوں اور ان کی ٹوٹکا تجویز کی طرف، جو جس شاخ پر بیٹھے ہیں اْسی کو کاٹنے کی بات کر رہے ہیں، اور اس کے لیے وہ چین اور ترکی سے مثالیں تراشتے ہیں، مگر وہ چین و ترکی کی تاریخ، تبدیلی کے محرکات، اثرات و مضمرات اور معروضی حالات سے صرف نظر کرتے ہوئے کسی فرد واحد یا ادارے کی خواہش ناتمام کی تکمیل کے لیے صدارتی نظام کا راگ الاپ رہے ہیں، ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ انسانی معاشروں اور سماجوں میں فارمولا نظام کا اطلاق نہیں ہوسکتا، ترکی اور چین دونوں دنیا کی عظیم ترین سلطنتوں کے وارث اور بیرونی غلامی کے اثرات سے پاک ریاستیں ہیں، جنہیں اپنی قومی شناخت، ثقافت، روایات اور وحدت پر فخر ہے، اس کے برعکس پاکستان صد سالہ غلامی سے آزاد ہونے والی ایک نوزائیدہ ریاست ہے، جس کی زندگی محض ستر سال ہے، اور ان ستر سال میں سے بیش تر عرصہ عالمی اور مقامی استعمار کے پروردہ و آلہ کار موقع پرست طالع آزمائوں کی نذر ہوئے ہیں۔ اگر ترکی اور وہاں کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان کی بات کریں، تو پاکستان کے برعکس ترکی کے انتخابات انجینئرڈ نہیں ہوتے، وہاں جمہوریت کی جڑیں نسبتاً مضبوط ہیں، وہاں آنے والی تبدیلی کسی بندوق بردار کی خواہش، قاضی کی مداخلت یا نادر شاہی فرمان کے ذریعے نہیں بلکہ عوامی امنگوں اور ووٹ کی قوت کے بل بوتے پر آئی ہے، رجب طیب اردوان ہمارے رہنمائوں کی طرح کسی نرسری میں اُگائے، یا مصنوعی گرین ہائوس میں لگائے یا رات کے اندھیروں میں نتائج کی تبدیلی یا کسی جانبدارانہ عدالتی ایکٹیوزم کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچائے نہیں گئے، نہ کسی انگلی کے اشارے کے منتظر تھے اور نہ ہی بیساکھی کے سہارے کھڑے ہیں۔ وہ ترکی کے سیکولر استعمار کو اسی کے کھیل اور میدان میں شکست دے کر، فوج اور عدلیہ گٹھ جوڑ کے علی الرغم جمہوری طریقے سے ایک بار نہیں بار بار منتخب ہوکر اسمبلیوں میں آنے اور حکومت سازی کے عمل اور سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں وہاں پہنچے ہیں جہاں وہ آج ہیں۔ ان کی حکومت کسی محلاتی سازش کے نتیجے میں چور دروازے سے صدارتی نظام لانے کی باتیں نہیں کرتی تھی، بلکہ وہ عوام کی تائید اور عوام کی منتخب کردہ اسمبلی میں دو تہائی سے زائد کی اکثریت سے یہ تبدیلی لائے ہیں۔ اور اس جمہوری تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے فوجی جرنیلوں، افسران اور عدالتی کاسہ لیسوں کو گھر ہی نہیں جیل بھی بھیج چکے ہیں۔
اب اس کردار اور تبدیلی کا موازنہ ذرا اپنے کٹھ پتلی نظام سے کیجیے اور صدق دل سے بتائیے کہ کیا اس ملک اور قوم کو بند گلی میں دھکیلنے والے، اس ملک کے اصل حکمرانوں اور ان کے درباری قصیدہ خوانوں کی لغو خام خیالیوں کے تابع لائی گئی کوئی بھی تبدیلی اس ملک و قوم کے درد کا درماں بن سکتی ہے؟ یا پھر پاکستان کو کسی مصنوعی تبدیلی کی نہیں ترک رہنما نجم الدین اربکانؒ کی تربیت یافتہ قول و فعل میں ہم آہنگ ایک ایسی ٹیم کی ضرورت ہے جس کی قیادت کسی منظور نظر کے بجائے گفتار و کردار کے غازی رجب طیب اردوان کے ہاتھ میں ہو؟ فیصلہ آپ کریں۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دَوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یَہود میں ہے
سْنا ہے مَیں نے، غلامی سے اْمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!