غیرت کہاں مرگئی؟

681

بھارتیا جنتا پارٹی نے اپنا ووٹ بینک مضبوط بنائے رکھنے کے لیے مذہب کو جی بھرکے استعمال کیا ہے۔ کبھی لوگوں کو گائے کے نام پر بے وقوف بنایا گیا اور کبھی رام جنم بھومی مندر کے نام پر ووٹ بٹورے گئے۔ اب ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر بن چکا ہے تو اُس کا کریڈٹ لیتے ہوئے بھی بی جے پی ووٹ مانگ رہی ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈاڑھی بڑھاکر سنت سنیاسیوں جیسا گیٹ اپ بنالیا ہے۔ اس گیٹ کو بھی کیش کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مذہب کے نام پر معاشرے کو تقسیم کرنے والی سیاست کے ذریعے بی جے پی صرف اپنے مفاد کی خاطر ملک و قوم کا بیڑا غرق کر رہی ہے۔ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کو اس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ اُن کی انتخابی سیاست کے ہاتھوں ملک و قوم کا کیا بنتا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ دیر اقتدار چاہتے ہیں۔ بی جے پی کی سیاست کا سب سے گھناؤنا روپ اتر پردیش میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ احمد آباد کے اخبار ’’لوک سَتّا جَن سَتّا‘‘ کے لیے دیپک آشر نے اپنے تجزیے میں بی جے پی کی گھناؤنی سیاست پر کڑی نکتہ چینی کی ہے‘‘۔
٭٭٭
اتر پردیش کے انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی نے بے شرمی کی ساری حدیں پار کرلی ہیں۔ بابر، اکبر، اورنگ زیب اور محمد علی جناح کو میدان میں لانے کے لیے رام چندر جی کو میدان میں لانے پر توجہ دی گئی۔ کرشن جی رہ گئے تھے سو اب ان کی انٹری کرائی گئی ہے۔ انتخابی فتح یقینی بنانے کے لیے مذہب کو جی بھرکے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ اکِھلیش یادو کہتے ہیں بھگوان کرشن اُن کے سپنے میں آئے اور کہا کہ یو پی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت بننے والی ہے۔ اس کے جواب میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کہتے ہیں ’’بھگوان کرشن کِتنوں کے سپنوں میں آتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ اب روؤ جی بھرکے۔ جو کام تم سے نہ ہوا وہ بھارتیا جنتا پارٹی نے کر دکھایا‘‘۔
اتر پردیش میں سیاست دانوں کو پاکستان اور جناح کے نام پر ووٹ چاہئیں۔ ووٹ بٹورنے سے غرض رکھنے والے اِن سیاست دانوں کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ عوام کو دو وقت کی روٹی ڈھنگ سے ملتی ہے یا نہیں۔ بابر اور دیگر مغل شہنشاہوں کے نام پر بکواس ضرور کرنی ہے مگر لوگوں کو یہ نہیں بتانا کہ انہیں مزید ملازمتیں مل سکیں گی یا نہیں۔ رام اور رحیم کے نام پر معاشرے کو تقسیم کرنے والا سیاسی کھیل ضرور کھیلنا ہے مگر کورونا کی تیسری لہر کے دوران اس بات کو یقینی نہیں بنانا ہے کہ لوگوں کو ضرورت کے مطابق آکسیجن ملتی رہے۔ ذات پات کی بنیاد پر معاشرے کو مزید الجھنوں سے دوچار رکھنا ہے مگر مہنگائی کو قابو میں کرنے کے حوالے سے کچھ نہیں کرنا۔ اور کچھ نہ بن پڑا تو اب انتخابی اکھاڑے میں کرشن جی کو اتارا ہے۔ لوگوں کو دو سو پانچ سو کا لالچ دے کر جلسوں اور ریلیوں میں لایا جارہا ہے۔ کورونا کی تیسری لہر کے دوران یہ اُن کی زندگی سے صریح کِھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے؟
اتر پردیش میں پارلیمنٹ کے رکن ہر ناتھ سنگھ نے بی جے پی کے سربراہ جے پی نڈّا کو خط لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ انہیں شری کرشن نے خواب میں آکر بتایا ہے کہ اُنہیں (ہر ناتھ سنگھ کو) یوگی آدتیہ ناتھ کے حلقے سے اُن کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا چاہیے! یعنی کہ اب بھگوان کرشن طے کریں گے کہ کس کی حکومت بنے گی اور کسے کہاں سے کس کے ساتھ الیکشن لڑنا چاہیے۔ سیاست دان کچھ تو شرم کریں۔
اکِھلیش یادو کہتے ہیں کہ بھگوان کرشن نے سپنے میں آکر مجھ سے کہا کہ رام راج کا راستا سماج وادی (سوشلسٹ) پارٹی سے ہوکر گزرتا ہے۔ اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشََو پرساد موریہ نے اکِھلیش یادو کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے مونگیری لعل اُن کے سپنوں میں آتے تھے، اب بھگوان کرشن آنے لگے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اکِھلیش یادو کو اب 2027 کے انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے۔ تب تک بی جے پی ہی کا راج رہے گا۔
اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت کے پارلیمانی امور کے وزیر آنند سوروپ شکلا نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متھرا میں واقع سفید محل کو شری کرشن جنم بھومی سنکُل کے حوالے کردیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی نے ایودھیا کا معاملہ تو سلجھادیا تاہم کاشی (بنارس) اور متھرا میں واقع مسلم عمارتیں مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ عدالت کی مدد سے یہ سب ختم کیا جائے گا۔ بی جے پی کے رام منوہر لوہیا کہتے ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ رام اور کرشن اُن کے اجداد تھے اور بابر، اکبر، اورنگ زیب حملہ آور تھے۔ اِن کی بنائی ہوئی کسی بھی عمارت سے بھارتی مسلمان اپنے آپ کو نہ جوڑیں۔ اور یہ کہ اب مسلمان آگے بڑھ کر متھرا کی عید گاہ شری کرشن جنم بھومی کمپلیکس کو دے دیں۔
شیعہ وقف بورڈ کے سابق سربراہ وسیم رضوی نے سناتن ہندو دھرم اپنالیا ہے۔ اس حوالے سے پوچھے جانے پر آنند سوروپ کہتے ہیں یہی تو گھر واپسی ہے اور مسلمانوں کو وسیم رضوی کے نقوشِ قدم پر چلنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کے تمام مسلمان پہلے ہندو تھے۔ اگر وہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو چار پانچ سو سال پہلے اُن کے اجداد ہندو ہی ملیں گے۔ ان سب کی گھر واپسی ہونی چاہیے۔
سماج وادی پارٹی پر بی جے پی کے کارکنوں پر فائرنگ کا حکم دینے کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ علی گڑھ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ شری کرشن کسی کے خواب میں آکر کہتے ہیں کہ حکومت اُس کی بنے گی مگر بہت سوں کے خواب میں آکر وہ یہ ضرور کہتے ہوں گے کہ اب بی جے پی کی کامیابی پر آنسو بہاؤ کیونکہ اقتدار پاکر جو کچھ تم نہ کرسکے وہ بی جے پی نے کر دکھایا ہے۔
زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹورنے کے لیے اتر پردیش میں مذہب کے نام پر انتہائی گندا اور گھناؤنا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اِس سے معاشرے کا تانا بانا ہی بکھرسکتا ہے۔ مذہب کے نام پر کی جانے والی سیاست چلتے چلتے اب اپنے پست ترین مقام تک پہنچ گئی ہے۔ اب یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ بھگوان ہی سب کو سَت بُدّھی (عقلِ سلیم) دے۔