سندھ ہائی کورٹ، شہید ڈی ایس پی کے اہلخانہ کی معاوضے کی درخواست

311

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے شہید ڈی ایس پی عبد المجید کے اہلخانہ کی معاوضے کی عدم ادائیگی کے خلاف درخواست پر درخواستگزار کے وکیل کی جانب سے مہلت طلب کرنے پر سماعت ملتوی کردی۔

جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس آفتاب احمد گورڑ اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل بینچ نے شہید ڈی ایس پی عبد المجید کے اہل خانہ کی معاوضے کی عدم ادائیگی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالتی حکم پر آئی جی سندھ مشتاق مہر پیش ہوئے۔ عدالت آئی جی سندھ مشتاق مہر پر برہم ہوگئی۔

جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مشتاق مہر کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب آپ سے سندھ میں مٹھی بھر ڈاکوکنٹرول نہیں ہوپارہے ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں۔ صوبے میں لوگ مررہے ہیں پولیس والے بھی شہید ہورہے ہیں۔ آپ تین سال سے آئی جی ہیں پولیس کے کمانڈر ہیں کچھ نہیں کرپارہے کندھ کوٹ میں پل بن رہا ہے ڈاکو ان سے بھی پیسے مانگ رہے ہیں۔ کہا گیا چار ڈاکومار دیئے، ڈاکوپولیس نے نہیں مارے۔ ڈاکوئوں کے ایک گروپ نے دوسرے گروپ کے ڈاکومارے۔

پولیس والے لاشیں خریدتے ہیں پھر پریس کانفرنس کرکے کریڈٹ لیتے ہیں۔ اندر سے سب ملے ہوتے ہیں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ سب آپ سے کیوں کنٹرول نہیں ہوپارہا آئے دن چوریوں اور ڈکیتیوں کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ جسٹس آفتاب احمد گورڑ کی جانب سے سرزنش کے دوران آئی جی سندھ مشتاق مہر ہاتھ باندھ کر خاموش کھڑے رہے۔

جسٹس آفتاب احمد گورڑ نے مکالمہ میں کہا کہ آئی جی صاحب 3 سال سے آپ آئی جی ہیں۔ لیکن عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ جس افسر کو جواب جمع کرانے کا کہتے ہیں، وہ کہتا ہے میری ابھی پوسٹنگ ہوئی ہے۔ شہید پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ کو معاوضہ دینے کے معاملے پر تضاد کیوں ہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ کسی شہید پولیس اہلکار کو معاوضہ سندھ پولیس نے نہیں دیا۔ عبدالفتح سانگھڑی کے اہلخانہ کو معاوضہ وزیراعلی سندھ نے دیا تھا۔ وزیر اعلی سندھ نے صوابدید پر شہید ڈی ایس پی کے اہلخانہ کو دو کروڑ روپے معاوضہ دیا۔ درخواستگزار کے وکیل اعجاز ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ شہید ڈی ایس پی عبدالفتح سانگھڑی کے اہلخانہ کو 2 کروڑ روپے معاوضہ دیا گیا۔

شہید ہونے والے دوسرے ڈی ایس پی عبدالمجید کے اہلخانہ کو 20 لاکھ روپے دیئے گئے۔ ایک کو دو کروڑ دوسرے کو 20 لاکھ روپے معاوضہ دینا امتیازی سلوک ہے۔ سلمان طالب الدین نے موقف دیا کہ کتنا معاوضہ دینا ہے کوئی قانون موجود ہی نہیں۔ پولیس کو بھی اختیار نہیں وہ کسی شہید اہلکار کو کتنا معاوضہ دینا ہے۔ پولیس نے محکمہ داخلہ اور خزانہ کو 18 جنوری کو خط لکھا ہے۔ جسٹس عدنان الکریم میمن نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی قانون موجود نہیں، پھر عدالت کیسے حکم نامہ جاری کرسکتی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی نے بھی کسی شہید اہلکار کو زیادہ رقم دی تو وہ بھی غلط دی۔ وزیر اعلی سندھ پبلک منی کسی کو اپنی مرضی سے کیسے دے سکتے ہیں سپریم کورٹ بھی واضح کرچکی ہے، عدالت وزیراعظم یا وزیر اعلی پبلک منی کا اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت استعمال نہیں کرسکتے۔ درخواستگزار کے وکیل نے موقف دیا کہ میں عدالت کو مطمئن کروں گا مہلت دی جائے۔عدالت نے مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔ ڈی ایس پی عبدالمجید عباس کو 2015 میں شہید کردیا گیا تھا۔