سانحہ مری کی کہانی ابن آدم کی زبانی

450

سانحہ مری کوئی معمولی واقعہ نہیں اس پر حکومت کو سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ ابن آدم کہتا ہے مری کے مقامی آدمی تو ہیں مگر انسان نہیں کئی ہلاکتوں کی اطلاع کے باوجود ناہوٹلوں کے دام آسمان سے نیچے آئے نہ انڈے کی قیمت چائے کی پیالی کی قیمت نہ ہوٹلوں کے کرائے میں کمی اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی مری والوں کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ پٹرول 500 لیٹر گرم پانی کا کین ہزار روپے نجانے کن کن طریقوں کو استعمال کرکے قوم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے آپ نے دیکھا کے کورونا وائرس کے آنے کے بعد دو شعبوں نے تاریخی لوٹ مار مچائی، اسپتالوں اور لیب والوں نے آج بھی لیب والوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ PCR پر 500 لاگت آتی ہے اگر لیب والے 1500 بھی لیں تو ٹھیک ہے مگر وہ 5 سے 7 ہزار آج بھی لے رہے ہیں اور ملک میں چیک اینڈ بیلنس کے تمام ادارے سکون کی نیند سو رہے ہیں کیونکہ ان کو باقاعدہ طور پر حصہ وقت پر مل جاتا ہے اور مجھے مری میں کرپشن کی بو آرہی ہے۔ مقامی انتظامیہ اس لوٹ مار میں برابر کی شریک ہے۔ میرے اسکول کے زمانے کے دوست طارق بھائی اور ہمارے کراچی کے سینئر صحافی تحسین کمال بھی اس واقعہ کے وقت مری میں موجود تھے۔ یہ تو اللہ نے ان لوگوں پر کرم کردیا جو آنکھوں دیکھا حال ان سے سنا تو دل رو دیا۔
میں سوشل میڈیا دیکھ رہا تھا۔ ایک ویڈیو کے علاوہ کوئی ایسی ویڈیو نظر نہیں آئی کہ کسی مقامی رئیس نے پھنسے ہوئے مصیبت زدہ لوگوں کی کوئی مدد کی ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانیت مرگئی یا کبھی تھی ہی نہیں۔ اس سانحے کے دوران چلتی ایمبولینس کا نام پڑھیے تو اس پر ایدھی لکھا نظر آئے گا۔ ایدھی کون ہے؟ مری ہی نہیں پاکستان میں انسانیت زندہ کبھی تھی یا ہمیشہ سے مردہ ہی تھی اس کا اندازہ کبھی کسی نے نہیں لگایا۔ یہ سانحہ مری نہیں یہ سانحہ پاکستان ہے صرف ایدھی ہی نہیں ملک کے زیادہ تر فلاحی ادارے وہ چلا رہے ہیں جو انسانیت اپنے لہو میں رکھتے ہیں۔ چھیپا ڈاکٹر ادیب رضوی، ظفر عباس اور سیاسی بنیادوں پر فلاحی کام کرنے والی الخدمت جو جماعت اسلامی کا ذیلی فلاحی ادارہ ہے، خدمت خلق جو MQM کا فلاحی ادارہ ہے ان سب کا تعلق کراچی شہر سے ہے۔ پاکستان کو کراچی سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے اور اس کا کیا حال ہے؟ یہ ہی کراچی کے غریبوں کے لیے فلاحی ادارے چلارہا ہے۔ سارا پاکستان کراچی آنے کو تیار رہتا ہے۔ مگر اس شہر کا حق ادا کرنا کوئی نہیں چاہتا۔ مری کے لوگوں کو کیا کہوں پیپلز پارٹی کا کردار بھی مری والوں جیسا ہے۔ کراچی والوں کے لیے بات اب ریکارڈ پر آنے لگی ہے، مہاجر قوم پرست اب مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ متروکہ سندھ مہاجر قوم کی زمین پر بااختیار صوبہ بنانا ہوگا۔ آج واحد جماعت جماعت اسلامی ہے جو کراچی والوں کے حق کے لیے باقاعدہ طور پر سندھ حکومت سے لڑ رہی ہے۔ کالے بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت کا تاریخی دھرنا اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے حکومت سندھ لالچ دے رہی ہے مگر جماعت کا طرّہ یہ ہے کہ اس کو کوئی خرید نہیں سکا۔
جن علاقوں میں برف باری ہوتی ہے وہاں پہلے سے ایک نظام اور SOP موجود ہے۔ ہر سال برف باری کے موسم سے پہلے متعلقہ حکام ان سرکاری ہدایات پر عمل کرتے ہیں، برف ہٹانے والی مشینیں اور ٹریکٹر ان مقامات پر پہنچادیے جاتے ہیں، مری پر مقامی حکومت اربوں روپے خرچ کرچکی ہے، مری ایکسپریس وے اس کی مثال ہے۔ مری میں برف باری ہوئی تو فرسٹریشن کا شکار لوگ جوق در جوق مری کی طرف جانے لگے تو ایک وزیر کا تاریخی ٹویٹ آیا کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری پہنچ چکی ہیں۔ سیاحت میں اضافہ عام آدمی کی خوش حالی اور آمدن میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929 ارب روپے منافع کمایا تمام بڑے میڈیا گروپس 22 سے 40 فی صد منافع میں ہیں اور اس تاریخی ٹویٹ کے بعد یہ المناک سانحہ وقوع پزیر ہوگیا۔ ایک نے تو وزیر کے ٹویٹ پر لکھ ہی دیا کہ یہ بیان معصوم جانوں کے نقصان کی ایف آئی آر ہے۔ ابن آدم کا یہ سوال ہے کہ محکمہ موسمیات نے پہلے بتادیا تھا کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال زیادہ برف باری ہوگئی۔ انوکھی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات نے 5 جنوری کو طوفان کی پیشگی اطلاع دی تو کیا انتظامیہ سورہی تھی۔ اطلاع کے باوجود پھر سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد کو مری میں داخل کیوں ہونے دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 7 جنوری کو مری میں 16 گھنٹے میں 4 فٹ برف پڑی۔ 3 سے 7 جنوری ایک لاکھ 62 ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ 16 مقامات پر درِخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی، گاڑیوں میں بیٹھے 22 افراد کاربن مونو آکسائیڈ سے جاں بحق ہوئے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹل چھوڑ کر گاڑیوں میں رہنے کو ترجیح دی لیکن مری میں پارکنگ پلازہ موجود نہیں، جہاں گاڑیاں پارک کی جاسکیں۔ مری اور گردونواح میں سڑکوں کی 2 سال سے جامع مرمت نہیں ہوئی۔ مری کے مرکزی خارجی راستے پر پھسلن کے باعث کوئی حکومتی مشینری موجود نہ تھی۔ صبح 8 بجے برف باری تھمنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی۔ تاہم مری کے خارجی راستے سے برف ہٹانے کے لیے ہائی وے مشینری بھی نہ تھی آخر اسنوکلیرنگ ڈپارٹمنٹ جو بنایا ہی اس مقصد کے لیے گیا تھا مگر وہ کہاں تھا اس نے کیا انتظامات کیے۔ اے ایس آئی نوید کا وہ آخری پیغام کچھ کرو بھائی ہم پھنس گئے ہیں مگر موت کا تو وقت مقرر ہے۔
سوچتا ہوں کہ کیا قیامت گزری ہوگی ان ہزاروں خاندان پر ان کے پیاروں پر ان خاندانوں پر جنہوں نے اپنے سامنے اپنے بچوں کو اس برفانی طوفان کے نیچے دبا ہوا دیکھا اور پھر وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان گنت سوالات چھوڑ کر سانحہ مری سے پاکستان Image دنیا بھر میں مجروح ہوا ہے غیر ملکی سیاحوں میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ پاکستان سیاحت کے لیے محفوظ ملک نہیں اور قدرتی سانحات سے نمٹنے کے لیے حکومت میں کوئی صلاحیت نہیں۔ دوسری طرف ہوٹل مالکان اور دکان داروں کی لوٹ مار اس واقعے پر پردہ ڈالنے کے بجائے اس واقعہ کی شفاف اور غیر جانبدارانہ انکوائری کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے فوری ٹرائل شروع کیا جائے مری میں لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے ہوٹلوں کو سیل کردیا جائے ہر ہوٹل کے باہر ریٹ لسٹ انتظامیہ کی طرف سے جاری کی گئی لگائی جائے کمرے کا کرایہ 2 ہزار سے 4 ہزار تک مقرر کیا جائے ہر شے جو وہاں فروخت ہوتی ہے اس کی سرکاری قیمت مقرر کی جائے اور اس کی مکمل پابندی کروائی جائے نہ ماننے والوں پر سزا اور جرمانہ لگایا جائے یہ ابن آدم کی رائے ہے۔