ہبہ، وصیت اور وراثت

990

زمین جائیداد یا کوئی دوسری چیز ایک شخص کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت میں منتقل ہونے کی تین صورتیں ہوتی ہیں: ہبہ، وصیت اور وراثت۔ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی مملوکہ تمام چیزیں اس کے ورثا کے درمیان شریعت کی بتائی ہوئی تفصیل کے مطابق تقسیم ہوتی ہیں۔ اس سے قبل وصیت(will) نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (النساء: 11-12 ) وصیت کے تعلق سے دو احکام ہیں: ایک یہ کہ ورثا کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی شریعت نے ہر شخص کو اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی کوئی چیز دوسرے کو ہبہ (gift) کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر وہ اس کا مالک ہے تو اسے اس میں تصرف کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ وہ اپنی زمین جائیداد وقف کر سکتا ہے، اپنے کسی اہلِ تعلق یا رشتے دار کو دے سکتا ہے اور اپنی اولاد کے درمیان بھی تقسیم کر سکتا ہے۔
اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کی صورت میں شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ سب کو برابر دیا جائے۔ انھیں دینے میں کمی بیشی نہ کی جائے۔
سیدنا نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انھیں رسول اللہؐ کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا: ’’میں نے اپنے اِس بیٹے کو فلاں چیز دی ہے۔ آپ نے دریافت کیا: ’’کیا تم نے یہ چیز اپنی دوسری اولادوں کو بھی دی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر اسے واپس لے لو‘‘۔ (بخاری، مسلم)
اسی حدیث میں ہے کہ آپ نے مزید یہ بھی فرمایا:
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام لو‘‘۔
ہبہ کے لیے دو شرطیں اہم ہیں: پہلی شرط ایجاب و قبول ہے، یعنی ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں نے تم کو فلاں چیز ہبہ کی ہے اور دوسرا اسے قبول کر لے۔ دوسری شرط قبضہ ہے۔ فقہا (احناف اور شوافع) کے نزدیک جس شخص کو کوئی چیز ہبہ کی گئی ہے، جب تک وہ اس پر قبضہ نہ کر لے، اس وقت تک ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔ اسے فقہی اصطلاح میں ’تخلیہ و تسلیم‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ چیز ہبہ کرنے والے کے قبضے سے نکل جائے اور جس کو ہبہ کی گئی ہے اس کے قبضے میں پہنچ جائے۔
سوال میں جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ صورت میں ہبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ والد مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں سے بعض کے نام زمینوں کی رجسٹری میں شامل کیے، لیکن انھیں ان پر قبضہ نہیں دیا، بلکہ رجسٹری کے کاغذات اپنی تحویل میں ہی رکھے۔ اسی طرح اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ان کے درمیان برابر تقسیم نہیں کی گئی اور ایک بیٹے کو کچھ بھی ہبہ نہیں کیا گیا۔
اس لیے مقاصدِ شریعت کی تکمیل اور میت کے حق میں ورثا کی خیر خواہی کا تقاضا یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمینوں کی جو رجسٹریاں بعض ورثا کے نام سے ہیں انھیں ہبہ نہ مانا جائے، بلکہ پوری جائیداد کی تقسیم وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق کی جائے۔
یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت اور اولاد کے سلسلے میں انسان کو احتیاط اور خیر خواہی کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کا مال اولاد کے لیے فتنہ نہ بنے، اس کے مرنے کے بعد اس کے چھوڑے ہوئے مال کو لے کر اولاد میں تنازعات نہ کھڑے ہوں اور اس کا مال شریعت کی روح اور مقاصد کے مطابق صرف ہو، ان باتوں کا خیال رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ باپ اگر اولاد کو یا کسی دوسرے کو کچھ ہبہ کرے تو اس کی واضح تحریر بنائے اور معتبر گواہیوں کے ساتھ ہبہ کرے۔ کسی کے حق میں وصیت کرے تو وہ بھی تحریری شکل میں گواہیوں کے ساتھ ہو۔ اگر وہ کوئی چیز ہبہ نہیں کرتا ہے، لیکن کسی بھی وجہ سے اپنی اولاد میں سے کسی کے نام یا کسی اور فرد کے نام کرتا ہے، تو اس کی بھی تحریری وضاحت اور گواہیاں ہونی چاہییں۔ غرض اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وارثوں کے درمیان کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہ رہے۔