کورونا وائرس کی تیسری لہر آچکی ہے۔ اومیکرون کا تیز رفتار پھیلاؤ بہت سے ممالک کے لیے انتہائی نوعیت کی صورتِ حال پیدا کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ میں اومیکرون نے تباہی مچادی ہے۔ کئی ممالک لاک ڈاؤن کی تیاری کرچکے ہیں۔ بعض ممالک نے محدود پیمانے پر لاک ڈاؤن کی مشق بھی شروع کردی ہے۔ ایسے میں یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ متحدہ عرب امارات نے ابھی تک اومیکرون کے اثرات زیادہ قبول نہیں کیے۔ یو اے ای کی حکومت نے اب تک دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں پر اپنے دروازے بند نہیں کیے۔ یو اے ای میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے پر غیر معمولی توجہ دی گئی ہے۔ کورونا ٹیسٹ کی سہولت بھی بہت بڑے پیمانے پر دستیاب ہے۔ یہی سبب ہے کہ یو اے ای کے لوگ اب تک کورونا کے ویریئنٹس سے بہت حد تک محفوظ ہیں۔ کورونا کا دباؤ جھیل کر آگے بڑھنے والے ممالک کے حوالے سے بلومبرگ نے حال ہی میں جو ریزیلینس رینکنگ جاری کی ہے اُس میں یو اے ای بہت نمایاں ہے۔ اس رینکنگ میں صحتِ عامہ کی سہولتوں، ویکسین لگانے کے اہتمام اور کورونا کے ہاتھوں ہونے والی اموات سمیت بارہ معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ یو اے ای اپنے لوگوں کو صحت مند رکھنے اور اپنے دروازے دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے کھلے رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
مرزام چاکلیٹ کمپنی کی ایک اعلیٰ افسر کیتھی جانسٹن تیس سال سے دبئی میں مقیم ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم سب نے مل کر کورونا وائرس کو پچھاڑا ہے۔ حکومت جو اقدامات کرتی ہے اُسے مقامی لوگ بہت اہمیت دیتے ہیں۔ پابندیوں پر پوری دیانت سے عمل کیا جاتا ہے۔ معاملات کبھی کبھی سست رفتار ہو جاتے ہیں مگر رکتے بہرحال نہیں۔ دو سال پہلے کے مقابلے میں اب ایسا لگتا ہے جیسے میں کسی اور ہی سیارے پر آگئی ہوں۔ اور مجھے یہ سب اچھا لگ رہا ہے‘‘۔
دبئی کے شہری بھی خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت آب و ہوا بہت اچھی ہے۔ جو لوگ دبئی آنا چاہتے ہیں اُن کے لیے اکتوبر سے مئی تک کا زمانہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ اس دوران ساحل پر زیادہ گرمی نہیں ہوتی۔ یہ آب و ہوا گھومنے پھرنے کی بھرپور گنجائش پیدا کرتی ہے۔ شامیں رنگین ہو جاتی ہیں۔ لوگ آؤٹ ڈور ایونٹس کا اہتمام کرتے ہیں۔ دبئی ساحلی شہر ہے۔ اس شہر میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لوگ مختلف ایونٹس میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت یہ شہر 6 ماہ تک جاری رہنے والے ایکسپو کا میزبان بھی ہے۔ ایکسپو 2020 مارچ 2022 تک جاری رہے گا۔ اس ایکسپو میں دنیا بھر کی کمپنیوں نے اسٹال اور پویلین لگائے ہیں۔ اس ایکسپو میں دنیا بھر کی کمپنیاں اپنی اشیاء و خدمات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے حوالے سے اپنے منصوبے بھی پیش کرتی ہیں۔ کیتھی جانسٹن کہتی ہیں ایکسپو میں جانا بھولیے گا نہیں اور اس لیے ایک دو دن نہیں بلکہ پورا ایک ہفتہ نکال رکھیے گا۔ اگر جاپانی سُوشی کے لیے تین گھنٹے تک قطار بند رہنا پڑے تو اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ایکسپو سینٹر میں بیرن ریستوراں کی کجھور کھیر کی لذت سے ہم کنار ہوئیے۔ ایک عشرے کے دوران دبئی نے ماحول دوست توانائی یقینی بنانے اور جدید ترین انداز کی ایسی عمارتیں کھڑی کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے والی ہوں۔ ایکسپو 2020 میں ایک سسٹینیبلٹی پویلین بنایا گیا ہے جس میں سولر ٹری توانائی اور سایا دونوں فراہم کرتا ہے۔ اس پویلین کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں 9 ہزار پودوں اور جڑی بوٹیوں سے ایک ورٹیکل فارم بھی بنایا گیا ہے۔
کیتھی جانسٹن کہتی ہیں کہ دو سال میں کئی نئے ریستوراں کھلے ہیں۔ کورونا کی وباء نے دبئی میں کام کرنے والے باورچیوں اور ریستوراں چلانے والے دیگر افراد کو نئے انداز سے کام کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا ہے۔ طلحہ محمد کہتے ہیں کہ مقامی اور جاپانی کھانوں کا مزا لینے کے لیے ایڈن ہاؤن کے رُوف ٹاپ ریستوراں جاکر اُگتے چاند کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اسپین کی ایک ڈش چُتورو ہے جس میں دبئی سے سو کلو میٹر دور واقع راس الخیمہ کا شہد استعمال ہوتا ہے۔ جس ریستوراں میں یہ ڈش پیش کی جاتی ہے اُس میں صرف آٹھ افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ وہاں چُتورو کھانے کے لیے پہلے سے بکنگ کرانا پڑتی ہے۔ دبئی میں رہائش پزیر وِبھا دَھوَن ایک ٹریول ایجنسی کی مشیر ہیں۔ وہ دبئی آنے والوں کو بوکا ریستوراں جانے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ریستوراں میں یو اے ای کے فارمز میں پروان چڑھنے والی سیمن مچھلی کی ڈش تیار کی جاتی ہے اور ساتھ ہی اونٹنی کے دودھ سے تیار کردہ آئٹمز بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
دبئی میں دنیا بھر کے ریستوراں کھلے ہوئے ہیں۔ کم و بیش ہر ملک کی تمام مقبول ڈشیں یہاں ملتی ہیں۔ یہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ کام کرتے ہیں۔ نسلی تنوع ریستوراں کی رنگا رنگی سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ یورپ، ایشیا، افریقا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، اوشیانا اور وسطِ ایشیا کے خطوں کی بہترین اور مقبول ترین ڈشیں دبئی میں آسانی سے دستیاب ہیں۔ دبئی کی حکومت اس بات کا خاص خیال رکھتی ہے کہ لوگ ماحول دوست طرزِ زندگی اپنائیں۔ دوبارہ استعمال کیے جانے والے کپ ساتھ لانے والوں کو بعض ریستوراں دس فی صد رعایت کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ وبھا دَھوَن کہتی ہیں اگر کسی کو یہ سمجھنا ہو کہ ماحول دوست اقدامات کیا ہوتے ہیں اور اُنہیں کس طور اپنی زندگی کا حصہ بنایا جاسکتا ہے وہ بایو فارم کی سیر کرے۔ یہ نجی شعبے کے تحت ملک کا سب سے بڑا بایو فارم ہے۔ درجنوں ایکڑ پر محیط اس فارم کی سیر کرنے والوں کو اندازہ ہو پاتا ہے کہ ماحول کو کن کن باتوں سے نقصان پہنچتا ہے اور ماحول کو نقصان پہنچانے والے افعال سے کس طور بچا جاسکتا ہے۔ بایو فارم میں سال بھر انتہائی لذیذ کھانوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
کوئی یو اے ای آئے اور صحرائی ماحول سے لطف اندوز نہ ہو تو سمجھیے کہ وہ محروم ہی رہا۔ دبئی کے کئی ادارے صحرا کی سفاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ دبئی کے پہلے نیشنل پارک میں ایک فائیو اسٹار تفریحی مقام بھی موجود ہے جہاں ہرن بھی رکھے گئے ہیں۔ اس نیشنل پارک میں عربی نسل کے 300 سے زیادہ ہرنوں کے جھنڈ بے فکری سے قلانچیں بھرتے رہتے ہیں۔ نیشنل پارک میں سیاح گاڑیوں میں بھی گھوم سکتے ہیں اور چاہیں تو گائڈ کے ساتھ پیدل بھی چل سکتے ہیں۔ دبئی کے وسط میں حال ہی میں تعمیر کیا جانے والا ٹوئنٹی فائیو اور زون ہوٹل بھی سیر کرنے والوں کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ عرب ممالک سے آنے والے سیاحوں کے لیے یہاں داستان گوئی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یو اے ای کی حکومت نے ثابت کردیا ہے کہ جامع منصوبہ بندی اور سخت اقدامات کے ذریعے کسی بھی ماحول میں مزید پنپنے کی بھرپور گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے۔ اومیکرون کی لہر کے دوران ایکسپو 2020 کا جاری رہنا بجائے خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ آج جو ممالک اومیکرون کے پھیلاؤ کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں وہ چاہیں تو یو اے ای کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
بشکریہ : روزنامہ ’’لوک سَتّا جَِن سَتّا‘‘ (احمد آباد، انڈیا)