کراچی(رپورٹ:حماد حسین) پاکستان میں اولڈ ہاؤسزکے بڑھتے رجحان کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام کا بتدریج کمی،میڈیا اور ڈرامے سمیت کئی عوامل ہیں۔ نظریاتی اور تہذیبی سیلاب جو دنیا کے گلوبل ولیج کے باعث آرہے ہیں۔ جس کے باعث ہماری معاشرت اجتماعی کے بجائے انفرادی طرز اختیار کرتی جارہی ہے۔خا ندانی نظام کی بقا اور بہتری کے لیے لازم ہے کہ عورت اور مرد دونوں اپنی ذمہ دار یوں کو سمجھیں تا کہ اولڈ ہاؤسز کے قیام کو روکا جاسکے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے سابق ڈین سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ ،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمراوروفاقی جامعہ اردوشعبہ نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالدہ تنویر نے نمائندہ جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔جامعہ کراچی کے سابق ڈین سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اولڈ ہاؤسز میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میںمشترکہ خاندانی نظام کی بتدریج کمی،میڈیا اور ڈرامے بھی اسمیں شامل ہیں۔پاکستان میں ماضی قریب تک بزرگ افراد کے لیے گھروں سے باہر ’اولڈ ایج ہومز‘ کا تصور تک نہیں تھا لیکن اب سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بہت سے ایسے ادارے قائم ہو چکے ہیں جہاں بزرگ شہری یا تو با امر مجبوری خود پناہ کے لیے پہنچ جاتے ہیں یا پھر اْن کے خاندان والے اْنہیں وہاں چہوڑ جاتے ہیں۔مربوط خاندانی نظام ختم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بزرگوں کو اب اپنے خاندانوں میں وہ مقام حاصل نہیں۔’خاندانی نظام اب تار تارٍ ہو گیا اور بزرگوں کو اب وہ مقام حاصل نہیں جو اْنہیں50 سال پہلے حاصل تھا۔‘‘بے جا لاڈ پیار اور بچوں کی تربیت مغربی تہذیب کے خطوط پر کرنا بھی اولاد کو اکثر نافرمان اور سرکش بنا دیتی ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامک ایجوکیشن کی چیئرپرسن ثریا قمرکا کہنا تھا کہ اسلا می معاشرے کی بنیا دی اکائی گھرہے لیکن اب مشترکہ خا ندانی نظا م کا تصور ختم ہو تا جا رہاہے۔ مرد اور عورت کسب معاش کی فکر میں اورمادی خوا ہشات کو پورا کرنے میں بہت مصروف ہو گئے ہیںجسکے نتیجے میں نہ بچوں کی تر بیت ہورہی ہے نہ بز ر گوں کی خد مت ، گئے وقتوں میں لوگ انسا نوں کو اہمیت دیتے تھے رشتوں کی قدر کرتے تھے آج عا لم یہ ہے کہ والدین کی خدمت اور ان سے حسن سلوک کے بجائے انہیں بوجھ سمجھا جا رہا ہے۔ اولا دیں والدین سے زندگی میں ان سے انکی چھت حاصل کر نا چاہتی ہیں اور نا کامی کی صورت میں انکو اولڈ ہاؤسز میں داخل کرا دیتی ہیں۔مغر بی اقدار کو اپنانے کی خواہش نے رشتوں کو کمزور کیا ہے۔ پہلے والدین اور خاندان کے بز رگوں یعنی دادا داری نانا نانی کو بڑی اہمیت دیجاتی تھی لیکن اب جس رشتے دار کے پاس مال و متاع ہو اس کو سر پر بٹھا یا جاتا ہے اور اگر والدین بیماری اور ضعیفی کے عالم میں ہوں اور انہیں گھر سے بیدخل کرنا ممکن نہ ہو تو انکی خدمت کر نے کے بجائے ملازم کے سپرد کردیا جاتا ہے شایدیہ معاشرتی دبائو ہو تا ہے جسکے باعث وہ ایسا نہیں کر پاتے ورنہ معاشرہ جس اخلا قی زوال سے دو چار ہے اسمیں اب یہ عا م سی بات بنتی جارہی ہے، ضروری ہے کہ اسلا م نے جس مضبوط خاندانی نظام کا تصور دیا ہے اسکی جانب توجہ دیجائے اس ضمن میں خواتین کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے اسے اولاد کی بہترین تربیت کرنا چا ھیے۔مرد اگر کو تاھی کا مظا ہرہ کرتا ہیتو اس میں عورت زیادہ ذمہ دارہے۔حدیث مبا رکہ ہے کہ مرد پہ زیادہ حق اسکی ماں کا ہے اور عورت پر زیادہ حق اسکے شو ہر کا ۔خا ندانی نظام کی بقا اور بہتری کے لیئے لازم ہے کہ عورت اور مرد دونوں اپنی ذمہ دار یوں کو سمجھیں تا کہ اولڈ ہاؤسز کے قیام کو روکا جاسکے۔وفاقی جامعہ اردوشعبہ نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالدہ تنویرکا کہنا تھا کہ اولڈ ہاوسز میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ نظریاتی اور تہذیبی سیلاب ہے جو دنیا کے گلوبل ولیج کے باعث آرہے ہیں۔ جس کے باعث ہماری معاشرت اجتماعی کے بجائے انفرادی طرز اختیار کرتی جارہی ہے۔ جب تک ہماری معاشرت اجتماعی رہی۔ تمام اولاد ایک چھت تلے والدین کے سائے میں رہتی رہی اور ضعیب والدین کسی ایک اولاد کی نہیں بلکہ گھر میں رہنے والے تمام افراد کی اجتماعی ذمہ داری سمجھے جاتے تھے اور یہی والدین ان سب بہن بھائیوں کو یکجا رکھنے کا سبب بھی ہوتے تھے۔ اب جبکہ معاشرت انفرادی صورت اختیار کرتی جارہی ہے تو والدین کسی ایک کی ذمہ داری بن جاتے ہیں اور وہ ایک اولاد بھی ان کی دیکھ بھال نہیں کرپاتی تو لازماً انہیں ایک متبادل سکونت کی ضرورت ہوتی ہے جہاں کے لوگ ان کی ضرورتوں اور کمزوروں کو قبول کرکے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑھتی ہوئی مادیت پسندی جس میں اولاد کے پاس والدین کے لیے اخراجات اٹھانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لہٰذا معاشرے میں موجود حساس لوگ اولڈ ہا?سسز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور ان کے قیام کی بھی عملی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ ان کے ہم عمر ساتھیوں کی موجودگی انہیں تنہائی سے بھی بچالیتی ہے اور یہ حقیقت کہ وہ اس کشتی میں تنہا نہیں انہیں نفسیاتی انحطاط سے بھی بچانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔