انڈونیشیا کی بڑھتی اہمیت

521

انڈونیشیا دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت ہے۔ یہ ملک جغرافیائی اور اسٹرٹیجک اعتبار سے قطعی غیر اہم نہیں مگر مغربی میڈیا اور خارجہ پالیسی کے ماہرین اب تک اِسے مجموعی طور پر نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے دسمبر کے وسط میں انڈونیشیا کا دورہ کیا جو عالمی پریس میں نوٹ کیا گیا۔ اس سے قبل اگست میں امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے بھی انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا مگر تب کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔ افغانستان سے بدحواسی کے عالم میں اور غیر منظّم طور پر نکلنے کے باوجود امریکا اب تک ایشیا و بحر الکاہل کے خطے میں اپنی پوزیشن سے زیادہ محروم نہیں ہوا۔ پورے خطے میں اس کا مقام بہت حد تک سلامت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران ایشیا و بحرالکاہل میں امریکی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ ایک طرف تو چین کا رویہ بہت بُرا رہا ہے اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے رخصت ہونے پر جو بائیڈن کی آمد نے بھی امریکا کی ساکھ کچھ بہتر بنائی ہے۔ ایک سال سے ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں AUKUS کا بڑا چرچا رہا ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا پر مشتمل اس اتحاد نے آسٹریلیا کو جوہری آبدوزوں کی فراہمی کا سَودا کروایا ہے۔ دفاعی امور کے ماہرین نے یہ بات کم ہی نوٹ کی ہے کہ ایک سال سے بھی زائد مدت کے دوران انڈونیشیا نے اپنی دفاعی قوت بڑھانے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ وہ کئی ممالک سے ہتھیار اور فوجی ساز و سامان حاصل کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ انڈونیشیا کو دفاعی صلاحیت بہتر بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ چین کا رویّہ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ انڈونیشیا کی قیادت کو دفاع کے حوالے سے سوچنے اور کچھ کرنے کی تحریک اُس خط سے ملی جو چینی قیادت نے رسمی طور پر لکھا تھا اور جس میں انڈونیشیا پر زور دیا گیا تھا کہ وہ بحیرۂ شمالی ناٹونا میں تیل کی تلاش کے لیے کھدائی روک دے۔ چین کی طرف سے یہ انتباہی خط انڈونیشین قیادت کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس ہوا۔ بحیرۂ شمالی ناٹونا میں تیل کی تلاش کے لیے کھدائی کرنا انڈونیشیا کا حق ہے کیونکہ یہ علاقہ اُس کی سمندری حدود میں شامل ہے اور اسپیشل اکنامک زون کا حصہ ہے۔ ملائیشیا اور ویتنام پڑوسی ہیں، چین نہیں۔ اِس بحری خطے سے چین کا کوئی تعلق نہیں۔ اُس کا جزیرہ ہینان انڈونیشیا کے پانیوں سے دو ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ انڈونیشیا کے حکام کا کہنا ہے کہ چائنیز انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی کا ایک جہاز انڈونیشیا کے علاقوں جاوا اور سماٹرا کے درمیان واقع آبنائے سَنڈا میں بھی سروے کرتا پایا گیا اور اس حالت میں کہ اُس کی شناخت چھپائی گئی تھی۔ چینی جہاز کا انڈونیشیا کے پانیوں میں یوں آنا اور اپنی شناخت چھپانا بالکل غیر قانونی تھا۔ علاوہ ازیں انڈونیشیا کے ماہی گیروں کے جالوں میں دو ایسے چینی آلات پھنس چکے ہیں جو زیر آب رہتے ہوئے سمندری نقشہ بناتے ہیں۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان تھوڑی بہت رنجش پائی جاتی ہے۔ فلپائن اس وقت چین کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ انڈونیشین حکام کا کہنا ہے کہ فلپائن کے پانیوں میں چین متواتر پیش قدمی کرتا رہتا ہے اور فلپائن کے صدر ڈیوٹرٹ کے کمزور زبانی ردِعمل کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے۔ دوسری طرف فلپائن میں مفاد پرست سیاست دن چین سے ایسے سمندری معاہدوں کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں جن سے قومی مفادات داؤ پر لگتے ہوں۔ اس حوالے سے ملائیشیا پر بھی غیر معمولی دباؤ ہے۔
1960 کی دہائی کے وسط میں صدر سوئیکارنو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اب تک انڈونیشیا نے عالمی سیاست میں خود کو زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا اس ملک کے بارے میں کم ہی جانتی ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا کی تیسری بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے مگر اِن دونوں حوالے سے بھی اُس نے خود کو زیادہ نمایاں حیثیت میں سامنے لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سمندری حدود کے حوالے سے انڈونیشیا کے دعوے تنازعات کھڑے کرتے رہے ہیں۔ کم لوگوں کو یاد ہے کہ 1957 میں انڈونیشیا نے اپنے آپ کو ریاست میں تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے تین ہزار جزائر کے درمیان واقع پانیوں پر مکمل تصرف کا دعویٰ کیا تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد انڈونیشیا بحری حدود سے متعلق اپنے تمام دعوے قبول کروانے میں کامیاب ہوا۔ 1982 میں UNCLOS (یو این کنونشن آن لا آف دی سی) میں اُس کے تمام بحری دعویٰ قبول کرلیے گئے۔
چین کی ناپسندیدہ حرکتوں سے انڈونیشیا میں زیادہ غصہ پایا جاتا ہے تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ چین اُس کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر اور بڑا سرمایہ کار ہے۔ چینی نسل کے لوگ انڈونیشیا کی معیشت میں غیر معمولی کردار کے حامل ہیں۔ صدر ودودو نے انڈونیشیا کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ انڈونیشیا میں ماہی گیری کا شعبہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ملک کے لیے خوراک کا بڑا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ برآمدات کا بھی اہم جُز ہے۔ صدر ودودو نے ماہی گیری کے حوالے سے انڈونیشیا کے حقوق کو مکمل محفوظ بنانے پر زیادہ توجہ دی ہے۔ ڈیڑھ دو سال کے دوران صدر ودودو کے سابق حریف اور موجودہ وزیر دفاع پروابووو سُبیانتو نے غیر معمولی تحرّک دکھایا ہے۔ اپنے سابق خُسر سوہارتو کے عہدِ صدارت میں وہ فوج کی اسٹرٹیجک کمانڈ کے سربراہ تھے۔ دفاعی بجٹ میں اضافہ کیے جانے کے بعد پرابووو سُبیانتو نے اکتوبر 2020 میں وزیر دفاع کی حیثیت سے امریکا کا دورہ کیا۔ یاد رہے کہ امریکی حکومت نے مشرقی تیمور میں متنازع کردار ادا کرنے پر پروابووو سُبیانتو کے امریکا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ پرابووو سُبیانتو نے جاپان سے فوجی ساز و سامان خریدنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے علاوہ اِسی مقصد کے تحت بھارت اور جنوبی کوریا کا دورہ بھی کیا ہے۔ جون 2021 میں کیے گئے ایک معاہدے کے تحت اطالوی نیول کنسٹرکٹر فِنکینٹیئری انڈونیشیا کو 8 جدید فریگیٹ فراہم کرے گا۔ انڈونیشیا آبدوزیں بھی خریدنا چاہتا ہے۔ روس اُسے سخوئی لڑاکا طیارے فراہم کرنا چاہتا ہے۔ روس کی کوشش ہے کہ فضائی قوت بڑھانے کے لیے انڈونیشیا اب امریکا اور فرانس کی طرف نہ دیکھے۔ انڈونیشیا نے جنوبی کوریا میں لڑاکا طیارے بنانے والے ایک ادارے میں بھی 20 فی صد سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
وہ زمانہ لد گیا جب انڈونیشیا محض تماشائی کی حیثیت سے سب کچھ دیکھتے رہنے کا عادی تھا۔ اب وہ اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔ اُس کی کوشش ہے کہ خطے میں اُس کی پوزیشن محض مستحکم نہ ہو بلکہ تسلیم بھی کی جائے۔ بھارت اور ویتنام کی طرح چین کے مقابل انڈونیشیا کو بھی اپنے بحری حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ ہم خیال ممالک سے اس کا اشتراکِ عمل کسی بھی اعتبار سے خارج از امکان نہیں۔ انڈونیشین قیادت کو تاخیر سے سہی مگر سلامتی کے معاملات پر توجہ دینے کا خیال آیا تو ہے۔ اب تک بری فوج کو طاقتور بنانے پر زیادہ توجہ دی جاتی رہی ہے۔ اب بحریہ کو زیادہ توانا بنایا جارہا ہے۔ اس کے لیے جہاز اور طیارے خریدے جارہے ہیں۔ انڈونیشین قیادت کو اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ چینی قیادت خطے میں اپنے اثرات کا دائرہ وسیع تر کرنا چاہتی ہے۔ اس معاملے میں انڈونیشیا سب کچھ آسانی سے ماننے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انڈونیشیا میں چند ایک معمولی سیاست دانوں کو تو خریدا جاسکتا ہے مگر مجموعی طور پر پورے ملک میں قومی یگانگت اور ہم آہنگی کی فضاء موجود ہے اور لوگ وطن کی مٹی سے بہت پیار کرتے ہیں۔
………
theglobalist.com
Indonesia’s Rising Importance
By Philip Bowring, January 10, 2022